اسلام آباد(نیوز ڈیسک)ایم ایم عالم کی آج چھٹی برسی ہے ،اسی حوالے سے معروف صحافی و اینکر پرسن جاوید چوہدری اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ایم ایم عالم نڈر تھے بے باک تھے جرات مند اور کھرے تھے لہذا ان کی اڑان روکنابھی مشکل تھا اور زبان بھی ۔ وہ بڑی سے بڑی بات منہ پر دے مارتے تھے یہ جرات مندی آہستہ آہستہ اس قومی ہیرو کو نگل گئی وہ مشرقی پاکستان کے حالات سے دل برداشتہ تھے وہ ببانگ دہل کہتے تھے بنگالیوں کے ساتھ بہتر سلوک نہیں ہو رہا لیکن ان کے خیالات کو لسانیت قرار دے
کر مسترد کر دیا جاتا تھا وہ 1969میں سٹاف کالج میں تھے لیکن ان کے باغیانہ خیالات کی وجہ سے انہیں سٹاف کالج سے فارغ کر دیا گیا۔مشرقی پاکستان کے سانحے نے ایم ایم عالم کے ذہن پر دو اثرات مرتب کئے پہلا اثر ان کی زبان پر ہوا ان کی زبان کی کڑواہٹ میں اضافہ ہو گیا وہ پاکستان کے نام پر لڑنے مرنے کیلئے تیار ہو جاتے تھے دوسرا اثر ان کے ذہن پر ہوا وہ مذہبی ہو گئے اور وہ اپنا زیادہ وقت دینی کتابوں اور عبادت کو دینے لگے جنرل ضیاالحق نے 1977میں مارشل لالگایا ایم ایم عالم مارشل لاکے خلاف تھے وہ بار بار کہتے تھے ہماری ان غلطیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا ہم نے اگر یہ غلطیاں جاری رکھیں تو ہم باقی ماندہ پاکستان بھی کھو دیں گے وہ جنرل ضیاالحق کے خلاف تھے وہ انہیں ایسے ایسے القابات سے نوازتے تھے جو تحریر میں نہیں لائے جا سکتے خفیہ ادارے ان کی گفتگو ریکارڈ کرتے تھے 1982میں انور شمیم ائیر فورس کے چیف تھے یہ صدر جنرل ضیاالحق کے دوست بھی تھے یہ دونوں اردن میں اکٹھے رہے تھے ائیر مارشل انور شمیم شاندار انسان تھے لیکن وہ اپنی بیگم کے زیر اثر تھے بیگم صاحبہ پر کرپشن کے الزامات لگ رہے تھے ایم ایم عالم ائیر فورس کے میس میں ان الزامات کا ببانگ دہل ذکر کرتے تھے وہ بار بار کہتے تھے ۔
جنرل ضیاالحق اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ملک کو تباہ کر رہے ہیں خفیہ ادارے نے یہ گفتگو ٹیپ کر کے چیف آف ائیر سٹاف کو پہنچا دی انور شمیم یہ ٹیپ لے کر جنرل ضیاالحق کے پاس چلے گئے جنرل ضیاالحق نے ٹیپ سنی اور ایم ایم عالم کو ائیر فورس سے فارغ کرنے کا حکم دے دیا اور یوں پاکستان کے ہیرو اور ائیر فورس کے ہسٹری کے ورلڈریکارڈ ہولڈر ایم ایم عالم کو 1982میں قبل از وقت ریٹائر کر دیاگیا وہ اس وقت ائیر کموڈور تھے ایم ایم عالم کی پنشن سمیت تمام مراعات روک لی گئیں۔
وہ درویش صفت انسان تھے دنیا میں ان کا کوئی گھر نہیں تھا شادی انہوں نے کی نہیں تھی لہذا وہ ریٹائرمنٹ کے بعد چک لالہ ائیر بیس کے میس میں مقیم ہو گئے وہ ایک کمرے تک محدود تھے کتابیں تھیں عبادت تھی اور ان کی تلخ باتیں تھیں حکومت کوشش کر کے نوجوان افسروں کو ان سے دور رکھتی تھی لیکن اس کوشش کے باوجود بھی اگر کوئی جوان افسر ان تک پہنچ جاتا تھا تو اس کے کوائف جمع کر لئے جاتے تھے اور بعد ازاں اس پر خصوصی نظر رکھی جاتی تھی چنانچہ نوجوان افسر بھی ان سے پرہیز کرنے گے جنرل ضیاالحق کے بعد ائیر فورس نے انہیں پنشن اور دیگر مراعات دینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے صاف انکار کر دیا وہ خوددار انسان تھے وہ دس دس دن فاقہ کاٹ لیتے تھے لیکن کسی سے شکایت نہیں کرتے تھے مدت بعد ایک ایسا شخص ائیر چیف بن گیا جس نے ان کی کمان میں کام کیا تھا اس نے ان کے تمام دوستوں کو درمیان میں ڈالا دو درجن لوگوں نے ان کی منت کی اور یوں وہ ریٹائرمنٹ کی طویل مدت بعد صرف پنشن لینے پر رضا مند ہوئے۔