جس کی نوکری 3 سال کی ہو اسے قوم کے فیصلے کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟9 لاکھ کیس عدالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، آپ وہ کام کریں آصف زرداری نے کھری کھری سنادیں 

15  دسمبر‬‮  2018

حیدر آباد (آئی این پی) پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے سربراہ و سابق صدرمملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ قوم کے فیصلے کرنے کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے، جس کی نوکری 3 سال کی ہو اسے قوم کے فیصلے کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے؟،9 لاکھ کیس عدالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، آپ وہ کام کریں، آپ کا کوئی مستقبل نہیں، چیزوں کے مستقبل کے بارے میں کیوں فیصلہ کرتے ہیں، بہتر تھا کہ شفاف انتخابات ہونے دیتے سیاسی جماعتیں لڑ جھگڑ کر اتفاق رائے سے حکومت بناتیں،

غریب کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں پر مجھے سخت غصہ آتا ہے ، تحریک انصاف کی حکومت معیشت کو بہتر کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی ، پی ٹی آئی سودنوں میں وہ کام نہیں کرسکی جو ہماری حکومت نے کئے ،ہم نے 100دن میں آمر مشرف کی چھٹی کی، سوات سے قبضہ چھڑوایا، وہاں صوفی محمد کا قبضہ تھا ان سے سوات کو آزاد کروایا، غریب لوگوں کیلئے بے نظیر بھٹو کارڈ بنوایا، موجودہ حکمرانوں کو کام کرنا آتا ہوتا تو ہی یہ کوئی کام کرتے، عوام کے مسائل عوام ہی کی جماعت پیپلز پارٹی ہی سمجھ سکتی ہے، کٹھ پتلی حکمران کبھی نہیں سمجھ سکتے، مجھے کرکٹ نہیں سیاست آتی ۔ ہفتہ کو حیدر آباد میں پیپلز پارٹی کے جلسے سے خطاب کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری جارحانہ موڈ میں نظر آئے اور اپنے دور حکومت کے پہلے 100 دن میں کیے کام بھی گنوا دیئے ۔ زرداری نے کہا کہ جس کی نوکری 3 سال کی ہو اس کو میری قوم کے فیصلے کرنے کا کیا حق پہنچتا ہے، 9 لاکھ کیس عدالتوں میں پھنسے ہوئے ہیں، آپ وہ کام کریں، آپ کا کوئی مستقبل نہیں، چیزوں کے مستقبل کے بارے میں کیوں فیصلہ کرتے ہیں؟’آصف زرداری نے مزید کہا کہ ‘قوم کے فیصلے کرنے کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے، بہتر تھا کہ شفاف انتخابات ہونے دیتے سیاسی جماعتیں لڑ جھگڑ کر اتفاق رائے سے حکومت بناتیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ آصف زرداری نے کہا کہ یہ اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے اندھے، گونگے اور بہرے لوگوں سے آپ کے ذریعے مخاطب ہوتا ہوں،

ان کو 100دن سے زیادہ دیر ہو گئی ہے، اب کہتے ہیں100دن بہت کم ہیں، ہم 100دن میں کچھ نہیں کر سکتے، میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم نے 100دن میں کیا کیا۔ سابق صدر نے کہا کہ ہم نے 100دن میں آمر مشرف کی چھٹی کی، سوات سے قبضہ چھڑوایا، وہاں صوفی محمد کا قبضہ تھا ان سے سوات کو آزاد کروایا، غریب لوگوں کیلئے بے نظیر بھٹو کارڈ بنوایا، موجودہ حکمرانوں کو کام کرنا آتا ہوتا تو ہی یہ کوئی کام کرتے۔انہوں نے کہا کہ کام کرنا آسان بھی نہیں ہے مگر اتنا مشکل بھی نہیں ہے،

آپ کی ضرورتیں ، آپ کی پریشانیاں اور آپ کے بچوں کی ضرورتیں صرف عوام کی پارٹی پیپلز پارٹی ہی سمجھ سکتی ہے، کٹھ پتلی حکمران کبھی نہیں سمجھ سکتے، اگر کراچی میں آ کر دس لاکھ گھر دینے والے پانچ لاکھ لوگوں کا روزگار ختم کر دیتے ہیں تو آپ سوچو ان کی عقل کہاں ہے، پہلے دکانیں بنائی جاتی ہیں، اس کے بعد گرائی جاتی ہیں، یہ لوگ پہلے نئی دکانیں بنا کر لوگوں کو وہاں منتقل کرتے اور اس کے بعد یہ دکانیں گراتے تو مجھے کوئی دکھ نہ ہوتا نہ ہی کوئی اعتراض ہوتا۔ آصف زرداری نے کہا کہ مجھے دکانیں گرانے پر اعتراض ہے کیونکہ جس کا چولہا جل رہا ہے

اور جس کے گھر میں دو وقت کی روٹی بن رہی تھی، وہ بھی انہوں نے چھین لی، غریب کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والوں پر مجھے سخت غصہ آتا ہے، میرے حق پر ڈاکہ ڈالنے کی کسی کی ہمت ہی نہیں ہے،یہ لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ بی بی کارڈ کو بند کر دیں مگر ہم ان کو ایسا کرنے نہیں دیں گے، دنیا میں ایسے بہت سے حکمران آئے جو کہ لوٹے گئے ہیں، وہ سمجھنے لگ گئے کہ شائد وہ ہر کام اچھا کر سکتے ہیں، اگر میں اچھی حکومت چلا سکتا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں کرکٹ بھی اچھی کھیل سکتا ہو، مجھے کرکٹ کھیلنی نہیں آتی مگر سیاست آتی ہے، سیاست میں کر سکتا ہوں،

سیاست ایسے ہوتی ہے کہ مشرف فارغ ہو کر گھر پہنچتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے پتہ نہیں چلا کہ یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا۔ سابق صدر نے کہا کہ ہم نے مشرف کو سزا اس لئے نہیں دی کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ وہ زندہ رہے اور دیکھتا رہے کہ کس طرح بے نظیر بھٹو کے یہ گلاب کے پھول بڑے ہو رہے ہیں، میں اس کی موت نہیں زندگی چاہتا ہوں، وہ دیکھے کہ جس کو وہ روکنا چاہ رہا تھا وہ لہر آج تک زندہ ہے اور آگے بڑھ رہی ہے، جس کو وہ بموں سے روکنا چاہ رہا تھا اس کے مزار پر آج بھی لوگ پیدل جاتے ہیں اور آپ کو تو کوئی پوچھتا ہی نہیں، آپ دبئی میں بیٹھے رو رہے ہو۔ آصف زرداری نے کہا کہ

میں نے اکثر یہ بات کہی ہے کہ جس کی نوکری تین سال کی ہو اس کو میری قوم کے فیصلے کرنے کا کیا حق ہے، یہ حق صرف پارلیمنٹ کو پہنچتا ہے اور کسی کو حق نہیں ہے، کبھی کہاں پہنچ جاتے ہیں تو کبھی کہاں پہنچ جاتے ہیں اور کہتے یہ نہیں صحیح وہ صحیح ہے، بھائی آپ کا واسطہ کیا ہے، 9لاکھ کیس پھنسے ہوئے ہیں، پورے جوڈیشل سسٹم میں، آپ وہ کام تو کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے بھی کہا اور آج بھی کہتا ہوں ہر کوئی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے، آئین ہی سب سے بڑا ہے، ہمیں اسی کے ذریعے چلنا ہے، پانی کا سندھ اور کراچی میں بڑا مسئلہ ہے،ہمیں اس کیلئے کچھ کرنا ہو گا،

ہمیں پانی دینے کیلئے طریقے متعارف کروانے ہوں گے، میں نے سی ایم سے کہا کہ لوگوں کو جدید طریقے سے پانی دیں اور مفت دیں، کوئی 5,10فیصد لے لیں مگر باقی پانی مفت میں دیں۔سابق صدر نے کہا کہ پاکستان زرعی ملک بنے، یہاں پر انڈسٹری زراعت پر منحصر ہے، ہم نے زراعت کو نہ سنبھالا تو بڑھتی آبادی کو کھانہ دیناممکن نہیں ہو گا، ہمیں آنے والے وقت کیلئے آج پلاننگ کرنی ہے، پیپلز پارٹی مستقبل کیلئے سوچتی ہے، بی بی صاحبہ اور بھٹو صاحب سوچتے تھے، ان کو شبہ تھا ایک دن بھارتی فوج زیادہ مضبوط ہو جائے گی اس لئے انہوں نے پاکستان کیلئے ایٹمی پروگرام شروع کیا تھا،

بی بی صاحبہ نے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کیلئے میزائل ٹیکنالوجی بھی لے کر پاکستان کو دی، بی بی نے اس زمانے کے چیف آف آرمی سٹاف کو کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ یہ کیا ہورہا ہے اور اس کا انجام کیا ہو گا تو اس وقت کے آرمی چیف نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اس سے میری جان بھی جا سکتی ہے، مگر پاکستان کیلئے میں یہ کر کے رہوں گا، اس کے بعد جا کر انہوں نے کام کیا، اس کے بعد اگر کسی نے اس کو خراب کیا تو اس میں ہم ذمہ دار نہیں ہیں۔ سابق صدر نے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں اور سندھو دریا کا پانی پیتے ہیں، اس سندھو کو ہم نے ہی سنبھالنا ہے، افغانستان اور انڈیا بھی ڈیم بنارہے ہیں، مگر ہم نے پورے پاکستان کا خیال کرنا ہے، پختونوں کو شناخت بھی ہم نے دی، موجودہ حکمرانوں سے کوئی کام نہیں ہوتا سوائے انڈے، مرغیوں کی باتوں کے، ان کو اگر سمجھ نہیں ہے تو کیوں لے کر آئے،آپ ،  اس سے بہتر تھا کہ آپ الیکشن ہونے دیتے جو بھی پارٹیاں آئی وہ آپس میں لڑ جھگڑ کر اتحاد بنا لیتی،

وہی حل تھا، جب نواز شریف کو لایا جا رہا تھا میں نے تب بھی کہا تھا کہ مت کرو پھر ان کو لے کر آئے، پھر ان سے لڑ پڑے، پھر نئے لوگوں کو لایا گیا، روز روز پاکستان کے ساتھ مذاق کرنا آپ چھوڑ دیں، پہلے ہی کافی مذاق ہو چکا ہے، ہم تین سال آگے جاتے ہیں تو آپ ایک ایسا قدم اٹھاتے ہیں کہ ہم 15سال پیچھے چلے جاتے ہیں، آپ سمجھتے کیوں نہیں کہ ہمارے مسائل کا حل ارتقائی عمل ہے، ارتقائی عمل سے اور بس ارتقائی عمل ہی ہے، اسی میں ہماری ترقی ہے، آپ کے اپنے کاروباری لوگ خوش نہیں تو کیسے امید رکھو گے کہ باہرو سے لوگ یہاں آ کر پیسے لگائیں گے، آپ پاکستان پیپلز پارٹی کو جیتنے کا موقع دیں میں آپ کو پاکستان کے اندر سے انڈسٹری لگا کر دیتا ہوں مجھے باہر کے پیسے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔سابق صدر نے کہا کہ باہر سے یہاں جو لوگ ایک ڈالر بھی لگاتے ہیں وہ یہاں سے 10ڈالر لے کر جاتے ہیں، اسی سے بہتر ہے کہ یہاں کے مقامی کاروباری افراد کو موقع دیا جائے، سٹاف ایکسچینج کو موقع دیا جائے، باہر سے صرف ٹیکنالوجی اور ایکسپرٹس لائے جاتے، سب دیکھنے سننے والوں کو پاکستان پیپلز پارٹی کا سلام۔

موضوعات:



کالم



گوہر اعجاز سے سیکھیں


پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…

میزبان اور مہمان

یہ برسوں پرانی بات ہے‘ میں اسلام آباد میں کسی…

رِٹ آف دی سٹیٹ

ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…