اسلام آباد(سی پی پی)ملک میں حکومت کی مدت احسن طریقے سے اختتام پذیر ہونے کے باعث جمہوری عمل کو لاحق خطرات کی قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا، اور اب عوام کی توجہ پوری طرح اپنے مذہبی اور سماجی معاملات کی انجام دہی کی طرف مبذول ہے۔پاکستانی عوام جو سخاوت میں پیش پیش رہتے ہیں،اس رمضان بھی فلاحی کاموں میں خوب پڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں،رواں سال پاکستانیوں کی جانب سے دیے گئے عطیات
ایک سو 73 ارب روپے کی نئی ریکارڈ سطح کو چھونے کے لیے تیار ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ اندازہ گزشتہ برس رفاہی کاموں کی مد میں ایک سو 58 ارب روپے خرچ کرنے کو مد نظر رکھتے ہوئے لگایا گیا، جس میں رواں برس 10 فیصد اضافہ متوقع ہے، تاہم تجارتی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ایک شخص نے اس اندازے کو محدود قرار دیا۔مذکورہ شخص کا کہنا تھا کہ خیرات جمع کرنے کی مہمات میں کمی دیکھنے کے باوجود خیرات کرنے میں کوئی کمی نہیں آئی، انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں عطیات کی ضرورت یا رمضان کے دوران عطیات جمع کرنے کے رجحان میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ، شدید گرم موسم کے باعث گھر گھر جا کر عطیات جمع کرنے میں کمی آئی ہوگی تاہم ٹیلی وژن پرچلنے والی تشہیری مہمات قابل ذکر ہیں۔اس ضمن میں بڑی فلاحی تنظیموں کے بینک اکانٹس دیکھنے والے ایک بینک اہلکار کا کہنا تھا کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے بھرپوراثرات کو دیکھتے ہوئے فلاحی تنظیموں کی مارکیٹنگ تکنیک میں بھی تبدیلی آئی ہے، جس کے تحت بڑے بڑے بل بورڈ آویزاں کرنے یا مخصوص علاقوں میں ٹیم کے ہمراہ کام کرنے کے بجائے اب اپنا پیغام پھیلانے کے لیے سماجی رابطوں کا پلیٹ فارم استعمال کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے بینکنگ سیکٹر سے
تعلق رکھنے والے ایک شخص نصراللہ عابد کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں خدمت خلق ایک قدرتی چیز سمجھی جاتی ہے، وہاں مجموعی ملکی پیداوار کی شرح نمو 5 فیصد ہونے کے باوجود عطیات میں 10 فیصد اضافہ ہونا عین ممکن ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فلاحی کام مسلمانوں کے مذہب میں شامل ہیں کیوں کہ اسلام مقررہ مالیت کی دولت و جائیداد پر 2.5 فیصد زکو ادا کرنے حکم دیتا ہے۔مارچ 2018 میں اسٹینفورڈ سوشل انوویشن ریویو نے
پاکستان میں خدمت خلق کے رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں دیے جانے والے عطیات مجموعی ملکی پیداوار کا ایک فیصد ہیں، اس حوالے سے پاکستان متمول ممالک کی فہرست میں کھڑا نظر آتا ہے جیسے برطانیہ مجموعی ملکی پیداوار کا ایک اعشاریہ 3 فیصد، کینیڈا ایک اعشاریہ 2 فیصد فلاحی کاموں کی مد میں خرچ کرتا ہے جبکہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان میں فلاحی کاموں کی مد میں خرچ کی جانے والی رقم دو گنا سے بھی زائد ہے۔اس حوالے سے ایک ماہر معاشیات کا کہنا تھا کہ حالانکہ یہ امداد ذاتی سطح پر دی جاتی ہے، لیکن اس سے ایسے افراد کو فائدہ پہنچتا ہے جو معاشرتی ناہمواریوں کے باعث نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات سے قطع نظرکہ عوام کی جانب سے رفاہی کاموں کا یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر کیا جاتا ہے ، حکومت اس میں مداخلت سے گریز کرتی ہے۔