اسلام آباد (نیو زڈیسک) ایک قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق الیکشن 2013ء میں دھاندلی کے حوالے سے14 میں سے جس ایک گواہ کوجوڈیشل کمیشن کی طرف سے سمن جاری کیا گیا ہے وہ یقیناً عمران خان کی حمایت بیان دے گا تاہم اس کا بیان بھی کراچی کے صرف ایک حلقہ انتخاب تک محدود ہوگا۔ باقی 13گواہوں میں سے دس سرکاری ملازم ہیں جو اس وقت ملازمت کررہے ہیں یا ریٹائرہوگئے ہیں، ان کی طرف سے پی ٹی آئی کے الزامات کی تصدیق کا کوئی امکان نہیں ہے۔ باقی تین گواہوں میں سے نجم سیٹھی جو پنجاب کے عبوری وزیراعلیٰ تھے، تحریک انصاف کی طرف سے”35 پنکچرز“ اور دیگر طرح کے الزامات کی صفائی دینے کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن یا کسی دوسرے فورم میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے حوالے سے عرصہ سے انتہائی بے تاب ہیں۔ وہ مسلسل تردید کے باوجودان الزامات کے بار بار دہرائے جانے پر اکثر اپنا غصہ اور مایوسی کا غبار نکالتے رہتے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن بننے کے بعد انہوں نے کمیشن میں درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں بھی کمیشن میں بلایا جائے تاکہ وہ خود پر لگے الزامات کی صفائی پیش کرسکیں۔ پی ٹی آئی کی درخواست پرانہیں کمیشن میں طلب کرنے پروہ بہت پرجوش ہیں۔ سیٹھی جنہیں اصل میں پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے عبوری وزیراعلیٰ کے لئے نامزد کیا تھا، انہیں ن لیگ سے کوئی محبت نہیں تھی کیونکہ اس نے اس عہدے کے لئے ان کا نام ہی تجویزنہیں کیا تھا۔ یہ بات انہوں نے نجی ٹی وی کے کئی پروگراموں میں تسلیم بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دیکھا جائے تو صاف و شفاف انتخابات کے لئے انہوں نے ن لیگ کو ”رگڑا“ دیا تھا۔ دیگر دو پرائیویٹ گواہوں کے بیانات نوٹ کئے گئے ہیں ان میں اینکرپرسن حامد میراورالیکشن کی مانیٹرنگ کرنے والی این جی او کے سربراہ مدثر رضوی ہیں جن کی طرف سے پی ٹی آئی کی کوئی بڑی مدد کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ان دونوں نے کیا کہنا ہے انہوں نے مختلف مواقع پر ٹی وی پروگراموں میں اسے صاف اور واضح دستاویزی شکل دے دی ہے۔ انہوں نے نیا کچھ نہیں کرنا۔ اب رہ گئے نبیل گبول توانہوں نے حلقہ این اے 246 کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا، الیکشن جیت لیامگر بعد ازاں مستعفی ہوگئے تھے۔ الیکشن میں دھاندلی پر پی ٹی آئی کے نقطہ نظرکو شیئر کریں گے مگران کا نقطہ نظر صرف ایک حلقہ انتخاب تک محدود ہوگا۔ اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری، جسٹس (ریٹائرڈ) خلیل الرحمن رمدے، ملٹری انٹیلی جنس کے بریگیڈیئر اور دیگر جن پرپی ٹی ا?ئی کی طرف سے ن لیگ کے حق میں دھاندلی کی سازش کے لگاتار بیانات داغے جاتے رہے ہیں، تحریک انصاف کے گواہوں کی فہرست میں شامل ہی نہیں ہیں۔ دیگرچار گواہوں میں پاکستان پرنٹنگ کارپوریشن اور سیکورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے چار ایم ڈی شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اس وقت کے چیف سیکرٹری پنجاب جاوید اقبال، اورڈپٹی ایڈیشنل سیکرٹری راﺅ افتخار، اس وقت کے پنجاب کے الیکشن کمشنرزمحبوب انور اور سندھ کے ایس ایم طارق قادربھی شامل ہیں۔ موخر الذکر دونوں ریٹائر ہوچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے جاوید اقبال کو پنجاب کا چیف سیکرٹری مقرر کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ عمران خان کی طرف سے قمر زمان (اب چیئرمین قومی احتساب بیورو) کا نام اس الزام کے تحت مسترد کئے جانے کے بعد ان کے نام کی منظوری دی گئی تھی کہ یہ بیوروکریٹ شریف برادرز کا وفادار ہے۔ نیا چیف سیکرٹری شریف مخالف بیوروکریٹ کے طور پر جانا جاتا تھا جبکہ راﺅافتخار ان کے ڈپٹی تھے جن کے گجرات کے چوہدریوں کے ساتھ پکے رابطے تھے۔ سیٹھی کی قیادت میں نئے نوکرشاہی کا انتظام اس طرح کیا گیا کہ ان درجنوں سینئر افسران کا تبادلہ کردیا گیا جن کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ شریف برادران کے قریب تھے اور یہ کہ وہ الیکشن میں ن لیگ کے حق میں اثر و رسوخ استعمال کرسکتے ہیں۔ تاہم ان میں چار مستثنیات تھیں۔ صوبائی سیکرٹری داخلہ شاہد خان (موجودہ سیکریٹری داخلہ)، سیکرٹری صحت عارف ندیم (ڈاکٹر یاسمین رشید کے بھائی جنہوں نے گوالمنڈی لاہور میں نوازشریف کے خلاف الیکشن لڑا تھا)، سیکرٹری خزانہ طارق باجوہ، موجودہ چیئرمین ایف بی آر جو کرنل (ر) غلام سرور کے پوتے ہیں جو پی ٹی آئی سے وابستہ تھے،انتقال کے باعث ٹکٹ حاصل نہ کرسکے اور سیکرٹری تعلیم اسلم کمبوہ جنہیں اپنی پوزیشنوں پر رہنے کی اجازت دی گئی تھی۔ بڑی تعداد میں سینئر افسروں کے تبادلوں کے بعد نجم سیٹھی ایسے افسر لائے جو ق لیگ کے سابق وزیراعلیٰ کے پسندیدہ تھے۔ توقع ہے سیٹھی خاص کرنوکرشاہی میں تبدیلیوں کے ان اہم اقدامات کے بارے میں بات کریں گے جو انہوں نے الیکشن کو شفاف بنانے کے مقصد کے تحت کئے تھے۔ انتخابات کے بعد خیبر پختونخوا حکومت نے بعض ان افسران کی خدمات حاصل کیں جو عبوری سیٹ اپ میں پنجاب میں خدمات انجام دے چکے تھے۔ ان میں علی رضا اور افضل لطیف شامل ہیں۔ تیسرا نام اسلم کمبوہ کا ہے جنہیں خیبرپختونخوا کا ایڈیشنل چیف سیکرٹری بنایا گیا ہے۔ دلچسپ امریہ ہے کہ باقی تین صوبوں میں عبوری حکومتوں نے بیوروکریسی میں کوئی تبدیلیاں نہیں لائیں۔ پنجاب کے الیکشن کمشنر محبوب انور الیکشن کمیشن کے ایک افسر ہیں انہیں نئے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے الیکشن کمیشن کے ایک اور افسر ظفر اقبال کی جگہ گزشتہ دسمبرمیں تبدیل کیا تھا جبکہ سندھ کے چیف الیکشن کمشنر ایس ایم طارق قادری اب بھی اپنی پوزیشن پر خدمات انجام دے رہے ہیں، نے پی ٹی ا?ئی کے تمام الزامات کی الگ الگ تردید کی ہے۔ انہیں توقع ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے سامنے ان کے دعوے دہرائے جائیں گے۔چیئرمین نادرا اور پرنٹنگ کارپوریشنزکے چار ایم ڈی سے توقع نہیں کہ وہ عمران خان کی کوئی مدد کریں۔