راولپنڈی (آئی این پی )پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ پاک فوج کی جانب سے حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش سے متعلق سوال کا جواب ہی نہیں بنتا ،سیاسی بات چیت سیاسی دائرہ کار میں ہوتی ہے پاکستان آرمی صرف ملک میں امن اور استحکام کو دیکھ رہی ہے،جے آئی ٹی کے ساتھ پاک فوج کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ، جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی تھی اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دو ممبر تھے،
جنھوں نے سپریم کورٹ کے ماتحت رہ کر محنت اور ایمانداری سے کام کیا، کیس سپریم کورٹ کے پاس جائے گا اور وہی فیصلہ کرے گی،ہر پاکستانی پر فرض ہے کہ وہ آئین و قانون کی پاسداری کو یقینی بنائے اور اس کا احترام کرے۔ ، آپریشن ردالفساد کے تحت خیبر ایجنسی کی وادی راجگال میں زمینی آپریشن ’’ خیبر فور‘‘ شروع کردیا ہے ، دہشت گردوں کی کمین گاہوں کوختم کیا جائے گا، امید ہے کہ اس آپریشن کے بعد ملک سے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا ،کلبھوشن یادیو نے آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی ہے کلبھوشن کی اپیل پر فیصلہ میرٹ پر کیا جائے گا، پاکستان میں داعش کامنظم انفراسٹرکچر موجود نہیں، سی پیک پر پوری قوم اور ادارے ایک ہیں اس کو مکمل سکیورٹی دیں گے اوراسے ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ اتوار کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہاکہ آپریشن ردالفساد کے تحت خیبر ایجنسی کی وادی راجگال میں زمینی آپریشن شروع کردیا ہے آپریشن خیبر فور شروع کیا گیا ہے۔ 2014 میں ضرب عضب شروع کیا اور پھر ختم کیا ہم نے اپنا علاقہ کلیئر کرالیا۔ انہوں نے کہا کہ شوال کو بھی جلد کلیئر کردیا جائے گا۔ راجگال فاٹا کا سب سے مشکل علاقہ یہ اس کی آٹھ گزر گاہیں ہیں راجگال کے افغانستان سے منسلک علاقے میں داعش کی موجودگی بڑھتی جارہی تھی،
ایک ڈویژن فوج آپریشن میں حصہ لے گی۔ دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو ختم کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پانچ سو کے قریب حالات کے باعث نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ ریاست کی عملداری بحال ہورہی ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی پورے ملک میں ردالفساد کے تحت 46 بڑے آپریشن کئے دہشت گرد آسان اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ کراچی میں دہشت گردی کے واقعات میں 98 فیصد کمی آئی۔ بلوچستان میں تیرہ بڑے آپریشن شروع کئے۔
انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر 9ہزار سے زائد آپریشن کئے گئے۔ ردالفساد کے تحت سندھ میں 522 دہشٹ گردوں نے سرنڈر کیا ۔انہوں نے کہا کہ کراچی میں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف موجود تھے اور کراچی آپریشن پر نظرثانی کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں رد الفساد کے تحت کارروائیوں میں 22دہشت گرد مارے گئے۔ پارا چنار واقعے میں گرفتار افراد کے داعش سے رابطے کے شواہد ملے ہیں۔ افغانستان سے منسلک سرحد پر باڑ لگائی جائے گی۔
باڑ لگانے کا مقصد بارڈر مینجمنٹ کو بہتر اور محفوظ کرنا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاک فوج ایل او سی پر بھارتی فائرنگ کا موثر جواب دیتی ہے۔ ایل او سی پر صورتحال کچھ عرصے میں کافی گرم رہی ہے۔ 2017 میں بھارت نے ایل او سی کی 580 خلاف ورزیاں کی ہیں۔ جوابی فائرنگ میں بھارت کی فوجی چوکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلبھوشن یادیو نے آرمی چیف سے رحم کی اپیل کی ہے کلبھوشن کی اپیل پر فیصلہ میرٹ پر کیا جائے گا۔
کشمیر میں جدوجہد کی وجہ سے بھارت کی جانب سے ایل او سی پر جارحیت میں اضافہ ہوا ہے۔ امریی کانگریس نے کل ایک بل پیش کیا جن دو افراد نے بل پیش کیا وہ بھارت کے زیر اثر ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس سفارتی استثنیٰ کے تحت واپس گیا۔ کتاب کنٹریکٹر کی حیثیت سے لکھی ،اس طرح کی کتابوں کے مقاصد اور ایجنڈے اور ہوتے ہیں وقت کے ساتھ سب واضح ہوجائے گا۔ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں صرف آئی ایس آئی نہیں تھی کیس میں حکومت کے اور بھی ادارے تھے۔
۔داعش کا منظم انفراسٹرکچر پاکستان میں نہیں۔ سی پیک پر پوری قوم اور ادارے ایک ہیں اس کو مکمل سکیورٹی دیں گے اور اس کو فیل نہیں ہونے دیں گے۔ جے آئی ٹی کے پیچھے ہونے اور حکومت کو غیر مستحکم کرنے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہاکہ یہ کہنا کہ پاک فوج کسی سازش کا حصہ ہے اس سوال کا تو جواب دینا بھی نہیں بنتا۔پاکستان آرمی وہ کام کررہی ہے جو ملک کے دفاع اور سلامتی کے لئے ضروری ہے۔
سیاسی بات چیت سیاسی دائرہ کار میں ہوتی ہے پاکستان آرمی صرف امن اور استحکام کو دیکھ رہی ہے۔ پاکستان فوج پاکستان کا حصہ ہے ہر پاکستانی پر فرض ہے کہ وہ آئین و قانون کی پاسداری کو یقینی بنائے اور اس کا احترام کرے۔ جے آئی ٹی کے ساتھ پاک فوج کا براہ راست تعلق نہیں ۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی تھی اس میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دو ممبر تھے۔ سپریم کورٹ کے ماتحت رہ کر محنت اور ایمانداری سے کام کیا ہے۔
کیس سپریم کورٹ کے پاس جائے گا اور وہ فیصلہ کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے افغانستان کے ساتھ بارڈر کی سکیورٹی کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے تاکہ اس راستے سے دہشتگردوں کی پاکستان آمد کا سلسلہ روکا جا سکے ۔آصف غفور نے کہا کہ 2007 میں جب آپریشن کا آغاز کیا گیا اس وقت روزانہ درجنوں کی تعداد میں بے گناہ شہری موت کے منہ میں جا رہے تھے مگر جب سے آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے اس وقت سے ان علاقوں میں رہنے والوں کی شرح اموات میں نمایاں کمی آئی ہے ۔