جمعرات‬‮ ، 28 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

’’ماڈرن بیوہ‘‘

datetime 20  جنوری‬‮  2019
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

معروف مصنف و ادیب مرحوم اشفاق احمدکہتے ہیں کہ فیصلہ اور تنقید رب کا کام ہے جو مقررہ وقت پر ہی ہو گا ، اللہ کا بوجھ نہ ہم اٹھا سکتے ہیں نہ اٹھانا چاہئے۔ پی ٹی وی کے پروگرام زاویہ میں گفتگو کرتے ہوئے اشفاق احمد نے لوگوں کی حقیقت سے ناواقفیت کی بنیاد پر تنقید کو موضوع بحث بنایا اور اپنی زندگی کا ایک سبق آموز واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ ”ہم سمن آباد میں رہتے تھے

جوایک پوش علاقہ تھا ۔وہا ں ایک بیوہ خاتون آکر رہنے لگی جس کے2 بچے تھے، خاتون بہت خوبصورت ، نوجوان اور ماڈرن تھی اوراسکا انداز رہن سہن کچھ شوخ اور باقی لوگوں سے مختلف تھا، وہ خوبصورت اور باریک کپڑے پہنتی اور بے تحاشہ خوشبو کا استعمال کرتی ، یہاں تک کہ اگر کوئی اس کے گھر کے آگے سے گزرے تو خوشبو کی لپٹوں کی زد میں خود کو محسوس کرتا۔خاتون جاسوسی ادب سے شغف رکھتی تھی اور دن سارا جاسوسی ناول پڑھتی رہتی اور بچوں کو گھر سے نکال دیا کرتی تھی۔ اس کے گھر کچھ مشکوک لوگوں کا بھی آنا جانا تھا جس کے باعث خاتون کے بارے لوگ اچھی رائے نہیںرکھتے تھے۔اشفاق احمد کہتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں آپس میں اور جمعے کے وقت مسجد میں بھی باتیں ہوتی تھی کہ محلے میںیہ کون اور کس قسم کی خاتون آکر رہنے لگ گئی ہے۔ایک دن ایسا ہوا کہ و ہ سبزی کی دکان پر گر گئی اور تین دن بعد انتقال کر گئی اور جو لوگ اس کے گھر آتے تھے وہی اسے کفن دفن کیلئے ساتھ لے گئے۔خاتون کے انتقال کے بعد لوگوں کو پتہ چلا کہ خاتون کو کینسر کی لاعلاج بیماری لاحق تھی اور جلدی کینسر کی ایسی خوفناک صورت تھی کہ اس کے بدن سے بدبو آتی رہتی تھی

جس وجہ سے اسے سپرے کرنا پڑتا تھا تاکہ لوگوں کو اس کے بدن سے آنیوالی بدبو سے تکلیف نہ ہواپنی اسی بیماری کی وجہ سے ہلکا پھلکا ، باریک لباس پہنتی تھی تاکہ زخموں کے ساتھ کپڑے الجھنے سے اسے تکلیف نہ ہو،جب تکلیف کی شدت بڑھ جاتی اور وہ درد برداشت نہ کر سکتی تو اپنے بچوں کو گھر سے باہر نکال کر دروازے بند کر لیا کرتی تھی تاکہ اس کے بچے

اسے تکلیف میں دیکھ کر بے چین اور پریشان نہ ہوں۔ اس کے گھر آنے والا ایک بندہ اس کا دیور تھا ، دوسرا سکا فیملی ڈاکٹر تھا جو اس کی دیکھ بھال پر مامور تھااور تیسرا اس کا وکیل تھا ۔آخر میں اشفاق احمد کا کہنا تھا کہ ہمیں تنقید کا کام اللہ پر چھوڑدینا چاہئیے جس نے اس کیلئے ایک وقت مقرر کیا ہے۔” ہم اللہ کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہ اٹھائیں کیونکہ اس کا بوجھ اٹھانے سے بندہ کمزور ہو جاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے“۔

موضوعات:



کالم



ایک ہی بار


میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…