سیدنا عمرؓ کے زمانے میں ایک علاقے کا شہزادہ تھا۔ وہ گرفتار ہو کر پیش ہوا۔ حضرت عمرؓ چاہتے تھے کہ اس بندے کو قتل ہی کروا دیں کیونکہ اس نے مسلمانوں کے خلاف بہت ہی زیادہ مصیبت بنائی ہوئی تھی۔ چنانچہ آپ نے اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ جب قتل کا حکم دے دیا تو اس نے کہا، جی کیا آپ میری آخری تمنا پوری کر سکتے ہیں؟ آپ نے پوچھا، کون سی؟ اس نے کہا مجھے پیاس لگی ہوئی ہے لہٰذا پانی کا پیالہ دیجئے،
آپ نے حکم دیا کہ اسے پانی کا پیالہ پلا دو چنانچہ اسے پانی کا پیالہ دے دیا گیا۔ جب اس نے پانی کا پیالہ ہاتھ میں لیا تو کانپنا شروع کر دیا۔ حضرت عمرؓ نے پوچھا، بھئی! آپ کانپ کیوں رہے ہیں؟ کہنے لگا، مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ میں ادھر پانی پینے لگوں گا اور ادھر جلاد مجھے قتل کر دے گا، اس لیے مجھ سے پیا ہی نہیں جا رہا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا تو فکر مت کر جب تک تو یہ پانی نہیں پی لیتا اس وقت تک تجھے قتل نہیں کیا جائے گا۔ جیسے ہی آپؓ نے یہ کہا تو اس نے پانی کا پیالہ زمین پر گرا دیا اور کہنے لگا، جی آپ قول دے چکے ہیں، کہ جب تک میں اپنی کا یہ پیالہ نہیں پیوں گا آپ مجھے قتل نہیں کریں گے، لہٰذا اب آپ مجھے قتل نہیں کر سکتے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ہاں میں نے قول دیا تھا لہٰذا اب میں تجھے قتل نہیں کرتا جیسے ہی آپ نے کہا کہ میں تجھے قتل نہیں کرتا تو اس وقت وہ کہنے لگا، جی اچھا آپ نے تو فرمایا کہ آپ مجھے قتل نہیں کریں گے لیکن میری بات سن لیجئے کہ آپ مجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان بنادیجئے۔ آپ نے پوچھا، بھئی! آپ پہلے تو مسلمان نہیں بنے اب بن رہے ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ پہلے آپ میرے قتل کا حکم دے چکے تھے، اگر میں اس وقت کلمہ پڑھ لیتا تو لوگ کہتے کہ موت کے خوف سے مسلمان ہوا ہے، لہٰذا میں چاہتا تھا کہ کوئی ایسا حیلہ کروں کہ موت کا خوف ٹل جائے، پھر میں اپنی مرضی سے اسلام قبول کروں اور لوگوں کو پتہ چل جائے کہ اللہ کی رضا کے لیے اسلام قبول کیا ہے۔ تو مخلص بندے کا کام کبھی ادھورا نہیں رہتا بلکہ ہمیشہ رب العزت اس کو پورا کر دیتے ہیں۔