دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں تارکین وطن کو جرمنی آنے کے تین مہینے بعد ہی کام کرنے کی اجازت دے گئی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال میں کام کرنے کی جلد اجازت نقصان دہ ہے تاہم جرمن محکمہ روزگار کے سربراہ اس سے متفق نہیں۔جرمن محکمہ روزگار اور وفاقی ادارہ برائے تارکین وطن اور مہاجرت کے سربراہ فرانک ڑ±رگن وائزے کا کہنا ہے کہ پناہ گزینوں کو جرمنی کی روزگار کی منڈی تک جلد رسائی فراہم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔جرمن خبررساں ادارے ڈی پی سے کی گئی ایک گفتگو میں وائزے نے صرف تین ماہ بعد ہی تارکین وطن کو کام کرنے کی اجازت دینے کے قانون کی حمایت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں، انہیں جرمن معاشرے میں ضم کرنے کا سب سے بہترین راستہ یہی ہے کہ انہیں کام کرنے کی اجازت دی جائے۔پناہ گزینوں کے لیے یورپی یونین میں شامل دیگر ممالک کی نسبت جرمنی میں روزگار تلاش کرنے میں کم رکاوٹیں حائل ہیں۔ کچھ ماہرین کی رائے میں یہ نرم قانون تارکین وطن کو جرمنی کی جانب راغب کر رہا ہے۔ تاہم وائزے اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں۔فرانک ڑ±رگن وائزے جرمن محکمہ روزگار کے علاوہ وفاقی ادارہ برائے تارکین وطن اور مہاجرت کے سربراہ بھی ہیںمحکمہ روزگار کے سربراہ کے مطابق ملازمت حاصل کرنے کے ان قوانین میں کوئی منفی بات نہیں ہے اور انہیں دوبارہ سخت نہیں بنانا چاہیے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا معاشی ضروریات کے لیے ترک وطن کا کوئی جواز نہیں ہے کیوں کہ روزگار کی تلاش میں جرمنی آنے کے خواہش مند قانونی طور پر باقاعدہ ’ورک ویزا‘ حاصل کر سکتے ہیں۔دو اہم وفاقی اداروں کے سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جو لوگ ’اپنی جانیں بچا کر جرمنی پہنچے ہیں، ہمیں ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ وہ جرمنی میں رہنے کے قابل ہو سکیں‘۔ ان کی رائے میں روزگار حاصل کرنے کے قوانین کو سخت بنا کر مہاجرین کو ڈرانا ’غلط طریقہ کار‘ ہو گا۔گزشتہ برس کے اواخر میں جرمن حکومت نے پناہ گزینوں کے لیے روزگار حاصل کرنے کے قوانین میں نرمی کر دی تھی۔ نئے ضابطوں کے مطابق تارکین وطن جرمنی میں باقاعدہ رجسٹریشن کے تین ماہ بعد سے کام کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔فرانک ڑ±رگن وائزے کے خیال میں جرمن روزگار کی منڈی اور مختلف علاقوں کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا جانا چاہیے کہ کن کن جگہوں اور کاموں کے لیے افرادی قوت درکار ہے۔محکمہ روزگار نے یہ بھی کہا کہ اگلے برس سے جرمنی میں بے روزگاری کے اعداد و شمار میں تارکین وطن کا الگ سے اندراج ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوں، ”بے روزگاری کی شرح کے اعداد و شمار تو ایک ہی ہوں گے، لیکن ہمیں یہ معلوم ہو پائے گا کہ کتنے بے روزگار مہاجرین ہیں اور کتنے مقامی۔“
تارکین وطن کو آمد کے تین مہینے بعد ہی کاکام کی اجازت
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
کام یابی کے دو فارمولے
-
سونے کی فی تو لہ قیمت میں حیرا ن کن کمی
-
عمران خان اور میری چکی میں ایک دیوار کا فاصلہ تھا،عمران خان کا جیل میں کیا شیڈول ہے؟انجینئر محمد علی...
-
مسجد الحرام؛ بالائی منزل سے چھلانگ لگا کر خودکشی کی کوشش، ویڈیو وائرل
-
راولپنڈی،11 سالہ لڑکی سے زیادتی، خاتون سمیت 3 افراد گرفتار
-
ہنی مون ٹرپ پر جھگڑا ، نوبیاہتا جوڑے نے واپس آتے ہی خودکشی کر لی
-
سلمان خان کتنی دولت کے مالک؟ اثاثوں کی تفصیلات سامنے آگئی
-
ٹیکنو نے قسط بازار 2025 میں آسان قسطوں پر سمارٹ فونز کی پیشکش متعارف کروادی
-
بھارت کی جانب سے کھیلنے، بھارتی جھنڈا لہرانے پر پاکستانی کبڈی کھلاڑی پر پابندی عائد
-
متحدہ عرب امارات میں ییلو الرٹ جاری
-
نئے سال کی آمد کیساتھ بارش ،محکمہ موسمیات نے خوشخبری سنادی
-
سنیل شیٹی نے 40 کروڑ کی آفر ٹھکراکر مثال قائم کردی
-
شکرپڑیاں میں ہو نے والی میوزیکل نائٹ میںانتہائی افسوسناک واقعہ
-
سعودی عرب میں سردی کا 17 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا















































