جمعہ‬‮ ، 22 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

سری لنکا

datetime 12  جنوری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

جہاز نیچے آیا تو کولمبو نے ہر دیکھنے والی نظر کو مقناطیس کی طرح کھینچ لیا‘ زمین پر مشرق سے مغرب تک سبزے کا قالین بچھا تھا‘ تاحد نظر پام اور ناریل کے گھنے درخت تھے‘ ان درختوں میں ترچھی سرخ چھتیں پروئی ہوئی تھیں‘ ساتھ ہی بحر ہند کا نہ ختم ہونے والا پانی تھا اور آسمان پر سرخ شام ٹنگی تھی‘ کولمبو فضا سے خوبصورت پینٹنگ دکھائی دیتا تھا۔
سری لنکا جادو کی سرزمین ہے‘ یہ زمین 504 قبل مسیح میں ایک ہندو شہزادے وجایا نے دریافت کی‘ یہ ملک سولہویں صدی کے وسط میں پرتگالیوں کے قبضے میں چلا گیا‘1656ء میں اس پر ہالینڈ(ڈچ)نے قبضہ کر لیا اور یہ 1796ء میں برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا یوں یہ اڑھائی سو سال تک یورپی طاقتوں کا غلام رہا‘ انگریز1948ء میں سری لنکا سے چلا گیا لیکن یورپی تہذیب کے اثرات آج تک یہاں موجود ہیں‘ لوگوں میں ٹھہراؤ ہے‘ یہ جلد باز یا پھڈے باز نہیں ہیں‘ شرح خواندگی 91.2فیصد ہے‘ لوگ دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں‘ قطار میں کھڑے ہوتے ہیں‘ فٹ پاتھ پربیٹھے فقیر بھی اخبار یا کتاب پڑھتے دکھائی دیتے ہیں‘ شہر صاف ستھرا ہے‘ آپ کو گلیوں‘ بازاروں‘ پارکوں اور ساحل کے کنارے کاغذ‘ ریپرز اور لفافے نظر نہیں آتے‘ لوگ سیاہی مائل سانولے ہیں‘ قد کاٹھ بھی زیادہ نہیں مگر تہذیب اور شائستگی ان کے قد کو بڑھا اور سانولے پن کو گھٹا دیتی ہے‘ سیاحوں کا احترام کرتے ہیں‘ غیر ملکی سیاح شہر میں دندناتے پھرتے ہیں مگر کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا‘ موسم گرم مرطوب ہے‘ دھوپ چبھتی ہے‘ آپ باہر نکلیں تو چند منٹوں میں پسینے سے شرابور ہو جاتے ہیں‘ جنوری کے پہلے ہفتے وہاں اتنی گرمی تھی جتنی ہمارے ملک میں مئی میں پڑتی ہے‘ لوگ سست الوجود ہیں‘ کام نہیں کرتے‘ رہی سہی کسر شراب نوشی نے پوری کر دی‘ ملک کے اسی فیصد جوان اور ادھیڑ عمر لوگ شراب پیتے ہیں‘ کھانے مصالحے دار اور گرم ہیں‘ غربت بھی ہے‘ کرنسی پاکستان سے بھی کمزور ہے‘ سری لنکا کے ایک سو تیس روپے ہمارے ایک سو روپے کے برابر ہیں‘ آٹا اور تیل درآمد ہوتا ہے‘ پٹرول کی قیمت پاکستان سے دگنی ہے‘ آٹا دو سے اڑھائی سو روپے اور باسمتی چاول ساڑھے تین سو روپے کلو ملتے ہیں‘ ٹرانسپورٹ گندی اور مہنگی ہے‘ شہر میں ہزاروں کی تعداد میں رکشے دندناتے پھرتے ہیں‘ یہ ٹم ٹم کہلاتے ہیں‘ بھارت سے امپورٹ کئے جاتے ہیں اور خاصے مہنگے ہیں‘ معاشرہ لبرل ہے‘ لڑکے اور لڑکیاں باہوں میں باہیں ڈال کر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں‘ شہر کرائم فری ہے‘ پولیس سست اور ڈھیلی ڈھالی ہے لیکن اس کے باوجود چوری چکاری اور لوٹ کھسوٹ کے واقعات نہ ہونے کے برابر ہیں‘ پاکستانیوں کا بہت احترام کیا جاتا ہے‘ آپ جوں ہی بتاتے ہیں‘ آپ پاکستان سے آئے ہیں لوگ ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ بھارت کے اثرورسوخ میں کمی آ رہی ہے‘ لوگ اب بھارتیوں کو پسند نہیں کرتے‘ دو اڑھائی ہزار پاکستانی بھی کولمبو میں موجود ہیں‘ یہ تمام لوگ خوش حال اور کاروباری ہیں‘ سونے کا زیادہ تر کاروبار پاکستانیوں کے ہاتھ میں ہے‘ آرکیڈ کولمبو کی مشہور مارکیٹ ہے‘ یہ انگریز کے زمانے کی خوبصورت عمارت ہے‘ عمارت کے اندر چائے خانے‘ کافی شاپس اور دنیا کے بڑے برانڈز کے آؤٹ لیٹس ہیں‘ بھارتی فلموں کی مشہور سری لنکن ہیروئن جیکولین فرنینڈس کا ریستوران بھی آرکیڈ میں ہے‘ فروٹ کی فراوانی ہے‘ آپ کو شہر میں سرخ کیلا بھی ملتا ہے‘ یہ کیلا جافنا سے آتا ہے‘ ناریل دو قسم کے ہیں‘ بالوں والے ناریل سے گری نکلتی ہے جبکہ پیلے رنگ کے بے بال ناریل کا پانی پیا جاتا ہے‘ یہ ناریل ’’کنگ کوکونٹ‘‘ کہلاتا ہے‘ پپیتا اور انناس بہتات میں پایا جاتا ہے‘ سرخ رنگ کی لیچی بھی ملتی ہے لیکن یہ لیچی کرکٹ کی گیند کے برابر ہوتی ہے‘ اس پر سرخ موٹے بال ہوتے ہیں اور یہ ’’راموئن‘‘کہلاتی ہے۔
میں وزیراعظم کے وفد میں شامل تھا‘ ہم پانچ صحافی تھے‘ سجاد میر ہمارے سینئر ہیں‘ یہ پاکستان میں سیاسی پروگرام سمیت صحافت کے بے شمار شعبوں کے بانی ہیں‘ یہ سیاسی اور تاریخی واقعات کی ڈکشنری ہیں‘ حامد میر‘ رحمان اظہر اور عادل عباسی بھی وفد میں شامل تھے‘ مجھے رحمان اظہر اور عادل عباسی دونوں کی ذہانت اور محنت نے حیران کر دیا‘ رحمان اظہر میں ہسٹری کی لاجواب سینس ہے‘ یہ اینکرپرسن کے ساتھ ساتھ بہت اچھے سیاح بھی ہیں‘ میں ان سے بہت متاثر ہوا‘ وزیراعظم کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل ناصر جنجوعہ اور طارق فاطمی بھی ہمارے ساتھ تھے‘ جنرل ناصر جنجوعہ میں تعلقات بنانے کی قدرتی صلاحیت ہے‘ انہوں نے یہ صلاحیت بلوچستان میں جی بھر کر استعمال کی‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کوئٹہ کو ان کے کور کمانڈر بننے سے پہلے دیکھئے اور اس کے بعد دیکھئے‘ آپ کو ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ جنرل صاحب اپنی یہ صلاحیت اب کار سرکار میں استعمال کر رہے ہیں‘ بھارت کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت کمار دوول ان سے آدھ گھنٹے کی ملاقات کیلئے بنکاک آئے تھے لیکن یہ ملاقات چار گھنٹے تک جاری رہی‘ کیوں؟ کیونکہ جنرل جنجوعہ نے پھر انہیں اٹھنے نہیں دیا ہوگا‘ بھارتی حکومت چھ دسمبر 2015ء کی بنکاک میٹنگ کے بعد اب اپنے تمام پیغامات جنرل جنجوعہ کے ذریعے پاکستانی حکومت اور پاکستانی اداروں کو دیتی ہے‘ یہ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان ’’ای میل‘‘ کا کردار ادا کر رہے ہیں اور پیچھے رہ گئے طارق فاطمی‘ یہ سفارت کاری کی تاریخ ہیں‘ ہم لوگ جس واقعے کا نام لیتے تھے یہ چند سیکنڈز میں اس کی پوری تاریخ بیان کر دیتے تھے‘ یہ شاید اس وقت پوری حکومت کے ان تین چار لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو وزیراعظم کے سامنے بولنے اور وضاحت کرنے کی جرأت رکھتے ہیں‘ یہ حس مزاح سے بھی لبریز ہیں‘ یہ چلتے چلتے فقرہ پھینکتے ہیں اور حاضرین کو ہنستا ہوا چھوڑ کر آگے نکل جاتے ہیں۔
میں پانچ جنوری کے دن چند گھنٹے نکال کر کولمبو شہر میں غائب ہو گیا‘ کولمبو کے دو ٹمپل بہت مشہور ہیں‘ گنگا رام ٹمپل شہر کے درمیان میں واقع ہے‘ یہ بودھ ٹمپل ہے‘ یہ دیکھنے کے قابل ہے‘ ٹمپل میں مہاتما بودھ کا بال بھی رکھا ہے اور اس میں بودھ کا دنیا کا سب سے چھوٹا مجسمہ بھی موجود ہے‘ یہ مجسمہ تین سینٹی میٹر لمبا ہے اور یہ صرف محدب عدسے کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے‘ ٹمپل میں سونے‘ چاندی‘ ہیروں اور ہاتھی دانت کے بیسیوں قیمتی مجسمے ہیں‘ ہر مجسمہ حیرت کدہ ہے‘ ٹمپل کے کارکن نے ایک چھوٹی سی الماری کھولی‘ سامنے بودھ کھڑا تھا‘ یہ مجسمہ صندل کی لکڑی سے تراشا گیا تھا اور جب بھی الماری کھولی جاتی ہے‘ ماحول میں صندل کی خوشبو پھیل جاتی ہے‘ دوسری الماری میں ایک ایسا مجسمہ تھا جسے آپ دائیں بائیں‘ اوپر نیچے جس طرف سے بھی دیکھتے تھے‘ بودھ کی آنکھیں آپ کے چہرے پر ہی رہتی تھیں‘ ٹمپل کے پچھلے صحن میں سٹیڈیم جیسی سیڑھیاں تھیں اور ان سیڑھیوں پر مہاتما بودھ کے سینکڑوں مجسمے تھے‘ یہ مجسمے دو حصوں میں نصب کئے گئے ہیں‘ بائیں بازو کے مجسمے بودھ کی نروان سے پہلے کی زندگی کا احاطہ کرتے ہیں جبکہ دائیں بازو کے مجسمے نروان سے بعد کی تاریخ ہیں‘ میں نے زندگی میں پہلی بار کسی شخص کی پوری حیات کو مجسموں کے ذریعے بیان ہوتے دیکھا‘ مجسمے بھی ایک زبان ہوتے ہیں اور یہ زبان اس ٹمپل کے صحن میں پڑی تھی‘ ٹمپل کی بائیں جانب دو سو سال پرانا برگد کا درخت تھا‘ بودھ برگد کی پوجا کرتے ہیں‘ سینکڑوں لوگ اس وقت بھی ہاتھ باندھ کر برگد کے سامنے بیٹھے تھے‘ یہ وہاں اگر بتیاں بھی لگا رہے تھے اور دھاگے بھی باندھ رہے تھے‘ برگد کے نیچے ٹمپل کا عجائب گھر تھا‘ میوزیم میں سینکڑوں مورتیاں رکھی تھیں اور ہر مورتی ایک تاریخ‘ ایک یادداشت تھی‘ ٹمپل میں چھ سو سال کا ایک کیلنڈر بھی تھا‘ آپ اس کیلنڈر میں چھ سو سال پیچھے بھی جا سکتے ہیں اور چھ سو سال آگے بھی۔ یہ کیلنڈر بھی حیرت کدہ تھا‘ ٹمپل کے مین ہال میں بودھ کا عظیم مجسمہ تھا‘ یہ مجسمہ فرش سے چھت تک ہے‘ اس پر سونے کا پانی چڑھا ہے اور یہ چند لمحوں کیلئے دیکھنے والوں کو مبہوت کر دیتا ہے‘ ہال میں موجود دو موسیقار ہمہ وقت ڈھول بجاتے رہتے ہیں‘ یہ چھوٹے سائز کے ڈھول ہیں اور ان کا ردھم دل کی دھک دھک سے ملتا جلتا ہے‘ بودھ کے مجسمے کے سامنے پھولوں کا ڈھیر لگا تھا‘ اس ڈھیر میں نیلے رنگ کے بڑے بڑے پھول بھی تھے‘ ٹمپل کے متولی نے پھول کی پتیاں کھولیں‘ پھول کے عین درمیان ’’آف وائیٹ‘‘ رنگ کا ایک سرہانا تھا‘ متولی نے سرہانا اٹھایا تو نیچے سفید رنگ کا چھوٹا سا گنبد نکلا‘ متولی نے بتایا‘ یہ گنبد ہمارا ’’سٹوپا‘‘ ہے‘ بودھ مت کے تمام ’’سٹوپا‘‘ پھول میں چھپے اس گنبد کی نقل ہیں‘ یہ پھول ’’کینن بال فلاور‘‘ کہلاتا ہے‘ مہاتما بودھ اسی درخت کے نیچے پیدا ہوئے تھے اور ان کا انتقال بھی اسی درخت کے نیچے ہوا تھا‘ یہ پھول اور اس پھول کے اندر چھپا یہ سٹوپا بھی حیران کن تھا‘ کولمبو کا دوسرا بڑا بودھ مندر ’’کیلانیا ٹمپل‘‘ ہے‘ یہ ٹمپل کولمبو شہر سے باہر ہے‘ مہاتما بودھ زندگی میں تین بار سری لنکا آئے تھے‘ وہ پہلی بار ماہینگانا میں آئے‘ دوسری بار ناگادیپا میں اور تیسری بارکیلانیا میں۔کیلانیا ایک بڑا ٹمپل ہے‘ ٹمپل کی چھتوں اور دیواروں پر مہاتما بودھ کی کیلانیا آمد کی تفصیلات پینٹ ہیں‘ مہاتما بودھ کیلانیا میں جس جگہ رہائش پذیر ہوئے تھے وہاں ایک وسیع سٹوپا بنا ہے‘ سٹوپا کی سفید عمارت آنکھوں کو بڑی دیر تک اپنی گرفت میں رکھتی ہے‘ کیلانیا میں بھی بودھا ٹری (برگد کا درخت) تھا‘ یہ درخت یقیناًپانچ چھ سو سال پرانا ہو گا‘ ٹمپل کے اندر تیس فٹ طویل ’’سلیپنگ بودھا‘‘ تھا‘ یہ بودھ مت کا ایک ایسا مجسمہ ہوتا ہے جو زمین پر ترچھا لیٹا ہوتا ہے‘ مجھے ٹمپل کے متولی نے بتایا‘ آپ بودھ کے پاؤں دیکھیں‘ اگر پاؤں جڑے ہوں اور ان کے دونوں انگوٹھے برابر ہوں تو اس کا مطلب ہوتا ہے‘ مہاتما بودھ آرام کر رہے ہیں اور اگر پاؤں کا ایک انگوٹھا آگے اور دوسرا تھوڑا سا پیچھے ہو تو یہ مہاتما بودھ کے انتقال کی نشانی ہے۔ ’’سلیپنگ بودھا‘‘ کے ساتھ ٹمپل کے انچارج کا کمرہ تھا‘ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں ایک چادر اور ایک تکیے کے سوا کچھ نہ تھا‘ بودھوں کی کل کائنات جسم کی دو چادریں‘ بھیک کا ایک تھیلا اور سیلپروں کی ایک جوڑی ہوتی ہے۔
ہم چھ جنوری کو چند گھنٹوں کیلئے کولمبو سے کینڈی بھی گئے‘ کینڈی میں مہاتما بودھ کے دانت کا ٹمپل ہے‘ یہ ٹمپل بھی دیکھنے کے قابل ہے‘ ٹمپل میں پاکستانی کارنر بھی تھا جس میں ٹیکسلا کے نوادرات رکھے ہیں‘ کینڈی کے مضافات میں چائے کے باغات ہیں‘ ان باغات کا فضائی منظر آپ کے دل پر نقش ہو جاتا ہے‘ سری لنکا صرف ایک ملک نہیں‘ یہ ایک حسین یاد ہے‘ ایک ایسی حسین یاد جو جتنی بوڑھی ہوتی جاتی ہے‘ وہ اتنی ہی خوبصورت‘اتنی ہی جوان ہوجاتی ہے۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…