اسلام آباد(نیوز ڈیسک )برطانیہ میں ایک عشرے پر محیط تحقیق میں کہاگیا ہے کہ ذہنی دباو¿ اور ناخوشی جلد انسانی موت کا سبب نہیں بنتی۔ اس بڑی تحقیق میں دس لاکھ عورتوں نے شرکت کی۔البتہ ماہرین کےخیال میں اگر پریشانیاں انسان کو بچپن میں ہی گھیر لیں تو صحت پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔اس تحقیق سے پہلے عام طور پر تصور کیا جاتا تھا کہ ناخوشی صحت کےلیے اور بالخصوص دل کے لیے مضر ہے۔سائنسی میگزین لانسٹ میں چھپنے والی تحقیق میں کہاگیا ہے کہ ماضی میں ہونے والی تمام تحقیقوں میں ’وجوہات اور اثرات‘ کو گڈمڈ کیاگیا ہے۔اس سے پہلے ہونے والی تحقیقات میں کہا جاتا رہا ہے کہ خوش رہنے سے انسان کے لمبی زندگی گزارنے کے امکانات زیادہ ہوتےہیں۔ کہا جاتا تھا کہ ناخوشی اور ذہنی دباو¿ انسان کے اعصابی نظام اور ہارمونز کو متاثر کرتا ہے جس کی وجہ سے جلد موت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔تحقیق کاروں نے کہا ہے کہ پرانی تحقیقات اس چیز کو دیکھنے میں ناکام رہی ہے کہ بیمار لوگ زیادہ خوش نہیں ہوتے۔اس تحقیق میں شریک لوگوں کو باقاعدگی سے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی صحت کا جائزہ پیش کریں اور اپنی خوشی اور ذہنی دباو¿ کی سطح کو بتائیں۔تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ ایسے لوگ جنھوں نے اپنی صحت کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ وہ ’کبھی بھی نہیں،‘ یا ’ کبھی کبھی‘ یا ’اکثر‘ ناخوش رہتے ہیں، ان کے جلد مر جانے کا امکان نہیں ہے۔آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیو ساو¿تھ ویلز سے تعلق رکھنے والے تحقیق کار ڈاکٹر بٹی لیو کا کہنا ہے کہ ’بیماری آپ کو ناخوش بناتی ہے لیکن ناخوشی آپ بیمار نہیں بناتی۔‘بیماری آپ کو ناخوش بناتی ہے لیکن ناخوشی آپ بیمار نہیں بناتی۔ڈاکٹر بٹی لیوانھوں نے کہا کہ دس سالہ سٹڈی میں ناخوشی یا ذہنی دباو¿ کے انسانی اموات پر کوئی اثرات سامنے نہیں آئے ہیں۔تحقیق کے معاون مصنف اور اوکسفرڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والےڈاکٹر سر رچرڈ پیٹو نے کہا کہ معمولی سگریٹ نوشی سے جلد موت کے امکانات دگنا بڑھ جاتے ہیں جبکہ باقاعدگی سے سگریٹ نوشی کرنے والے کی جلد موت کا امکان تین گنا بڑھ جاتا ہے لیکن ناخوشی قبل از وقت موت کا باعث نہیں بنتی۔ڈاکٹر سر رچرڈ پیٹو نے کہا کہ ناخوشی کے بالواسطہ اثرات ہو سکتے ہیں، جیسے کوئی اگر پریشانی کی وجہ سے کثرت شراب نوشی یا بسیار خوری میں مبتلا ہو جائے، اس کے جلد موت پر اثرات ہو سکتے ہیں لیکن ناخوشی بذات خود جلد موت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ڈاکٹر سر رچرڈ پیٹو نے کہا کہ ذہنی دباو¿ اور پریشانی سے جلد موت کے بارے میں خیالات اتنے پرانے اور پختہ ہیں کہ انھیں آسانی سے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ’جب یہ کہانی ختم ہو جائے گی تب بھی لوگ یقین کریں گے کہ ذہنی دباو¿ دل کے امراض کا سبب بنتا ہے۔ یہ سچ نہیں ہے لیکن لوگوں کو اس پر یقین کرنا اچھا لگتا ہے۔‘اس تحقیق پر تبصرہ کرتے فرانس کے شہر تولوز کے یونیورسٹی ہسپتال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر فلپ ڈی سوتو اور پروفیسر یوو رولینڈ نے کہا ہے کہ اس پر مزید تحقیق کیے جانے کی ضرورت ہے۔