اسلام آباد(نیوز ڈیسک )انگلینڈ کی چیف میڈیکل آفیسر ڈیم سیلی ڈیوس نے موٹاپے کو خواتین کی صحت اور آنے والی نسلوں کی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔اپنی سالانہ رپورٹ میں ان کا کہنا ہے کہ موٹاپے سے نمٹنا ایک قومی ترجیح ہونی چاہیے اور ساتھ ہی خواتین کو اس قابل بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ صحت مند اور فعال زندگی گزار سکیں۔صحت کے ماہرین کی جانب سے اس رپورٹ اور اس میں خواتین کی صحت پر دی جانے والی توجہ کا خیرمقدم کیا گیاہے۔51 فیصد کی صحت: خواتین کے نام سے شائع ہونے والی رپورٹ میں انگلینڈ میں خواتین کی بہتر صحت کے لیے 17 تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ڈیم سیلی کہتی ہیں کہ موٹاپے کا مرض اتنا سنجیدہ مسئلہ ہے کہ اسے قومی سطح پر آبادی کے لیے ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔انھوں نے مزید کہا کہ خاص طور پر خواتین پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ موٹاپا ان کی زندگی کا دورانیہ کم کرنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔انگلینڈ میں سنہ 2013 میں 34 سے 44 سال کی عمر کے درمیان کی 64 فیصد خواتین اور 45 سال سے 54 سال عمر کے درمیان کی 71 فیصد خواتین یا تو موٹاپے کا شکار تھیں یا پھر فربہی کی طرف مائل تھیں۔سیلی نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ خواتین کو اپنے بچوں اور ان کی نسلوں کی خاطر دوران حمل اپنی جسمانی اور دماغی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔موٹاپا اب قوم کے لیے سب سے اہم صحت کا مسئلہ بن گیا ہے۔موٹاپے کے اقتصادی اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ شاید این ایچ ایس (نیشنل ہیلتھ سروس) کے دیوالیے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔پروفیسر نک فائنرتحقیق کے مطابق دوران حمل اگر کوئی خاتون موٹاپے کا شکار ہوں تو اسقاط حمل اور قبل از وقت پیدائش کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق دوران حمل کسی خاتون کی مجموعی صحت اس بچے کی آنے والی زندگی میں اس کی صحت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے۔ڈیم سیلی کہتی ہیں کہ وہ ’اس کہاوت کا خاتمہ‘ چاہتی ہیں کہ دوران حمل خواتین کو دو افراد کے حصے کی خوراک کھانی چاہیے۔انھوں نے مزید کہا کہ شراب نوشی سے پرہیز کرنا اور پھلوں اور سبزیوں پر مشتمل صحت افزا خوراک کا استمعال کرنا بہت اہم ہیں۔یونیورسٹی کالج لندن کے کارڈیو ویسکیولر سائنس کے انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر نِک فائنر کا کہنا تھا کہ موٹاپا اب ’قوم کے لیے سب سے اہم صحت کا مسئلہ بن گیا ہے۔موٹاپے کے اقتصادی اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو یہ شاید این ایچ ایس (نیشنل ہیلتھ سروس) کے دیوالیے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’موٹاپے کے مسئلے کو قومی سطح پر اٹھانے کی صورت میں اس بہت بڑے اور صحت سے متعلق سنجیدہ ترین مسئلے پر حکومت کی جانب سے’ عدم مداخلت‘ کے رویے میں تبدیلی کے امکانات بھی ہیں۔‘