(نیوز ڈیسک ) انٹرنیٹ پر خرید و فروخت ہونے والے سکّے ’کرپٹو کرنسی‘ نے ایک نئی ایپ متعارف کرائی ہے جس سے پیدل چلنے والے یہ کرنسی کما سکتے ہیں۔کمپیوٹر کے ذریعے پیدا کی جانے والی ’بِٹ کوائنز‘ یا ان جیسے دیگر سکّوں کے برعکس آپ ’بِٹ واکنگ ڈالر‘ چل پھر کر کما سکتے ہیں۔اس کے لیے اب آپ ایک نئی ایپلیشن یا ایپ اپنے فون پر ڈاو¿ن لوڈ کر سکیں گے ہیں جو صارف کے قدموں کا شمار کرتی ہے اور تقریباً ہر ایک ہزار قدم کے بعد آپ ایک بِٹ واکنگ ڈالر یا بی ڈبلیو ڈالر کے حقدار ہو جاتے ہیں۔روبوٹ بنانے والے کپمنی مراتا نئی ایپ کے لیے الیکٹرانک کڑا بنا رہی ہے کمپنی کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں صارفین اپنے ڈالر صرف آن لائن سٹوروں سے خریداری کے لیے استعمال کر سکیں گے یا ان سکّوں کو انٹرنیٹ پر فروخت کر کے ان کے بدلے میں نقدی لے سکیں گے۔یہ ایپ بنانے والے، نسان بہار اور فرینکی امبیسی کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے منصوبے کو عملی شکل دینے کے لیے اب تک مختلف سرمایہ کار ایک کروڑ امریکی ڈالر دے چکے ہیں۔ ان سرمایہ کاروں کی اکثریت کا تعلق جاپان سے ہے۔نسان بہار اور فرینکی امبیسی کے مطابق سرمایہ کاروں کی جانب سے ملنے والی رقم سے وہ ایک بینک قائم کریں گے جو اس بات کی تصدیق کے بعد کہ کوئی صارف کتنا پیدل چلا ہے، بِٹ واکنگ ڈالر اس کے کھاتے میں ڈالیں جائیں گے۔گذشتہ برس انھوں نے ’کی پوڈ‘ نامی ایک یو ایس بی سِٹک متعارف کرائی تھی جس کی قیمت محض سات ڈالر تھی اس نئی ایپ کے لیے الیکٹرانکس کی دنیا کی بڑی جاپانی کمپنی ’م±راتا‘ آج کل ایک کڑا بنانے پر کام کر رہی جسے صارفین اپنی کلائی پر باندھ سکیں گے اور یوں انھیں اپنے قدم گننے کے لیے سمارٹ فون کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اس کڑے پر اس بات کا شمار رکھا جا سکے گا کہ کسی صارف نے کتنے بِٹ واکنگ ڈالرز کمائے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ جوتے بنانے والی کمپنیاں اس نئی ڈجیٹل کرنسی کو قبول کریں گی اور آپ اس کرنسی کے ذریعے ان کے ہاں خریداری کر سکیں گے۔برطانیہ میں بھی ایک بڑے بینک نے بِٹ واکنگ ڈالرز کے منصوبے کا حصہ بننے کے لیے بات چیت شروع کر دی ہے اور خیال ہے کہ اگلے سال ملک میں موسیقی کے ایک بڑے میلے یا میوزک فیسٹیول کے موقعے پر اسے لانچ کیا جائے گا۔بِٹ واکنگ کے منصوبے سے افریقی ممالک میں سے مالی اور کینیا کو شامل کیا گیا ہے نئی ایپ بنانے والے ماہرین کی شہرت ہے کہ وہ گاہے بگاہے ایسی ٹیکنالوجی متعارف کراتے رہتے ہیں جس سے ترقی پزیر ممالک کے لوگ بھی اتنا ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جتنا ترقی یافتہ ممالک کے لوگ۔مثلاً گزشتہ برس انھوں نے ’کی پوڈ‘ نامی ایک یو ایس بی سِٹک متعارف کرائی تھی جس کی قیمت محض سات ڈالر تھی لیکن یہ اس قدر کارآمد تھی کہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں اسے غریب لوگوں کے لیے کپمیوٹر کا بدل سمجھا گیا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں