اسلام آباد(نیوز ڈیسک)دھنیا پودینہ، چٹنی اور سرکے میں ڈوبی کٹی ہوئی پیاز کے ساتھ طاہری کی سادہ اچھائی کا کوئی جواب نہیں۔ یہ مزیدار ہوتی ہے، اسے بنانے میں جیب پر بوجھ بھی نہیں پڑتا جبکہ یہ جسم اور روح کو مناسب حد تک غذائیت بھی فراہم کرتی ہے اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ اتنی مصالحے دار ضرور ہوتی ہے کہ دیسی پکوانوں کے شوقین کو مطمئن کر دیتی ہے۔چاول سے بنے پکوان برصغیر کے مختلف حصوں میں پسند کیے جاتے ہیں اور اس خطے میں بریانی، پلاو، طاہری اور کھچڑی وغیرہ کی متعدد اقسام ہیں. ہر ایک کا یہ بھی دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کا ورڑن ہی سب سے بہترین ہے۔مغل بادشاہ شاہ جہاں کی اہلیہ ممتاز محل کو جدید بریانی تخلیق کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔اسی طرح ایسی روایات موجود ہیں کہ حیدرآباد دکن کے نظام کی خواہش تھی کہ حیدرآباد کا اپنا ایک شاہی پکوان ہو، لہٰذا ان کے کچن میں کیے گئے تجربات کا نتیجہ لیجنڈری حیدرآبادی بریانی کی شکل میں سامنے آیا۔تاہم سب سے خاص بریانی شاید وہ ہے جس کی تیاری میں گوشت کا استعمال نہیں ہوتا۔ خطے کے نوابوں نے ایسے ویجیٹرین باورچیوں کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں جو بغیر گوشت کی بریانی پکاتے تھے اور اس طرح طاہری کا قیام عمل میں آیا۔یخنی والے چاول عالمی اور ایک تاریخی غذا ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک کے پکوانوں میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔ طاہری نے اپنا شجرہ پلاوسے حاصل کیا، بریانی سے نہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ پلاو کو گوشت کے ساتھ جبکہ طاہری کو سبزیوں کے ساتھ تیار کیا جاتا ہے۔مگر کچھ حلقوں کا اصرار ہے کہ بریانی ہی طاہری کی جد امجد ہے، سبزی مصالحے کے ساتھ طاہری پکا کر بریانی کے گوشت مصالحے کے متبادل کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔فارسی باورچی چاولوں کو کئی گھنٹوں تک نمکین پانی میں بھگوئے رکھتے تاکہ وہ کرسٹلز کی طرح چمکنے لگیں اور ابالنے کے دوران چاول مثالی حد تک پھول سکیں۔ اگر بھگونے کے دوران وہ جڑ جاتے یا چپک جاتے تو وہ چاول کو مسترد کر دیتے۔صدیوں بعد فرینچ سیاح اور کلچرل اینتھروپولوجسٹ توینیر نے مشاہدہ کیا کہ طاہری اور گوشت کے پلا کے لیے موزوں بہترین چاول آگرہ کے جنوب مغرب میں کاشت کیے جاتے ہیں۔ پھولنے میں مثالی ہونے کے ساتھ ہر دانہ الگ اور پھولتا ہے۔جب بابر برصغیر میں آیا تو اسے یہاں کے پکوان ایک آنکھ نہیں بھائے۔ وسطی ایشیاءسے تعلق کے باعث وہ خانہ بدوش چرواہوں کی گوشت سے بھرپور غذا کو پسند کرتا تھا۔ گوشت کا پلاوکسی بھی وسط ایشیائی کچن کا بنیادی جز ہوتا تھا۔فارس، وسطی ایشیاءاور انڈیا کے ثقافتی امتزاج نے پلا وکی ایک نئی شاخ کو جنم دیا، یعنی زبردست بریانی. یہ مغل باورچی خانے تھے جہاں عمدہ و لطیف پلاو کو انڈین مصالحوں سے مزین کر کے مصالحے دار بریانی کو جنم دیا گیا، جس کا ارتقاءاتر پردیش کے کچن میں سبزی بریانی کی شکل میں ہوا۔لکھنو¿ کے باورچیوں کو خوشبودار طاہری پکانے پر فخر تھا اور وہ اس پکوان کی بغیر گوشت کے ذائقے کی نفاست کو برقرار رکھتے تھے؛ چاولوں میں پھولوں کا عرق اور سبزیوں کی مہک اس کا ذائقہ بڑھا دیتے تھے۔پاکستان اور انڈیا کے اہم پکوان وسط ایشیائی، ترک، افغان اور فارسی جڑوں کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ نظرانداز نہیں کر سکتے کہ ان کی غذائیت اور ذائقہ مقامی مصالحوں، دیسی اجزائ، علاقائی ثقافت اور اس خطے میں رہنے والی نسلوں کی بدولت آیا۔برصغیر کے پکوان منفرد اور صدیوں کے ارتقاءکے بعد آج اس شکل میں ہمارے سامنے ہیں یعنی غذائیت سے بھرپور اور لذیذ۔میں آج طاہری کی تیاری کے لیے اپنی والدہ کی ترکیب کا استعمال کر رہی ہوں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ متوقع ہٹ ہے۔ اب یہ میرے کچن سے آپ کے کچن کا رخ کررہی ہے۔
اجزائ
ڈیڑھ کپ باسمتی چاول ،ایک پیاز،دو ٹماٹر،دو سبز مرچ،ایک چائے کا چمچ ادرک لہسن،نمک حسب ذائقہ ،سرخ مرچ پاوڈر حسب ذائقہ ،آدھا چمچ زیرہ ،آدھا چمچ ہلد ،ایک بڑا آلو، چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیں،آدھے سے تین چوتھائی کپ کٹی ہوئی گوبھی،آدھا کپ مٹر یا گاجریں (مرضی پر منحصر ہے)،ایک سیاہ الائچی، دار چینی، کڑی پتا،چار سے چھ کالی مرچچار لونگیں،تیل حسب ذائقہ
طریقہ کار
تیل کو گرم کرکے پیاز کو بھون لیں، اب ٹماٹر، سبز مرچ، ادرک لہسن، نمک، زیرہ، ہلدی اور سرخ مرچ شامل کرلیں۔کچھ منٹ تک تیز آنچ پر پکائیں پھر آلو، گوبھی، مٹر یا گاجر شامل کر کے کچھ منٹوں تک پکائیں اور پھر اس میں تین چوتھائی کپ گرم پانی اور گرم مصالحہ ڈال دیں۔اب دھلے ہوئے چاول ان چیزوں میں شامل کر لیں اور اس وقت تک تیز آنچ پر پکائیں جب تک چاول سبزیوں کو اپنے اندر جذب نہ کر لیں اور ابلے ہوئے نظر نہ آنے لگیں۔اب ہلکی آنچ پر چاولوں کو دم دیں، جب چاول پھول جائیں تو انہیں چٹنی، سلاد اور رائتے کے ساتھ پیش کریں۔
کچن مہکادینے والے لذیذ طاہری کی ترکیب
3
نومبر 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں