ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی کی ویلیو بہت کم ہے‘ ایک ڈالر کے تیرہ ہزار8سو سم ملتے ہیں‘ آپ سو ڈالر تبدیل کرائیں تو آپ کو تیرہ لاکھ اسی ہزار سم مل جائیں گے‘ پڑھے لکھے نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کی تنخواہیں ڈیڑھ سے دو سو ڈالر ہیں لیکن اس کے باوجود ازبکستان کے لوگ مطمئن ہیں‘ ان کے چہروں پر آسودگی‘ اطمینان اور سکون نظر آتا ہے‘
آپ کوپورے ملک میں بھکاری دکھائی نہیں دیتے‘ لوگ کسی کو دھوکا نہیں دیتے‘ ریستورانوں میں ٹپ کا رواج نہیں‘ ہم نے دو تین بار ویٹروں کو ٹپ دینے کی کوشش کی لیکن انہوں نے رقم لوٹا دی‘ ہوٹل سستے‘ ریستوران بہت اچھے اور ٹیکسیاں عام ہیں‘ عام شہری سیاحوں کو دیکھ کر گاڑی روک لیتے ہیں اور سیاحوں کو پندرہ بیس ہزار سم میں منزل پر پہنچا دیتے ہیں‘ عورتیں کام کرتی ہیں‘ ہم نے خوانچہ فروشی سے لے کر آفس تک خواتین کو کام کرتے دیکھا‘ ازبکستان میں انگریزی جاننے والے لوگ بہت کم ہیں لیکن اس کے باوجود کسی کو احساس کمتری نہیں‘ ہم ازبکستان میں غربت کے باوجود اطمینان دیکھ کر حیران رہ گئے‘ ریسرچ کی تو چار وجوہات سامنے آئیں‘ پہلی وجہ لاء اینڈ آرڈر تھی‘ ازبکستان میں ریاست کی گرفت بہت مضبوط ہے‘ حکومت قانون کی خلاف ورزی پر کسی کو رعایت نہیں دیتی‘ آپ نے قانون توڑا نہیں اور آپ جیل یا جلاوطنی کاشکار ہوئے نہیں‘ آپ ازبکستان میں مذہبی اختلاف اور سماجی تفاوت پر بات نہیں کر سکتے‘ عدالتیں مذہبی اختلافات کو ہوا دینے اور معاشرے کا امن خراب کرنے والوں کے معاملے میں ریاستی اداروں کو سپورٹ کرتی ہیں‘
جج شدت پسندی پھیلانے والوں کو رعایت نہیں دیتے‘ پورا ملک اسلحے سے پاک ہے‘ پولیس کے ہاتھ میں بھی رائفل دکھائی نہیں دیتی‘ یہ بھی رائفل غلاف میں لپیٹ کر باہر لاتی ہے‘ ازبکستان میں اگر کسی کے پاس اسلحہ برآمد ہو جائے تو وہ عبرت ناک انجام کا شکار ہو جاتا ہے‘ ملک میں قانون سب کے لیے برابر ہے اور کوئی اس سے بالاتر نہیں اور ملک میں ایسے مافیاز اور کارٹلز کا نام و نشان نہیں جو نظریہ ضرورت‘ سیاسی افہام و تفہیم اور جمہوری اتحاد کو بنیاد بنا کر قانون کی ناک موڑ لیں چناںچہ لوگ بے خوف اور بے خطر ہیں‘ آپ کسی کے دروازے پر دستک دیں وہ نہ صرف دروازہ کھولے گا بلکہ آپ کو گھر کے اندر بھی لے جائے گا اور اس وقت خواہ گھر میں خواتین اور بچوں کے علاوہ کوئی نہ ہو‘ یہ اطمینان اور یہ بے خوفی معاشرے میں قانون اور انصاف کی بالادستی کی دلیل ہے۔ دوسری وجہ روز مرہ کی اشیاء کی فراوانی اور سستا پن ہے‘
ازبکستان فروٹ پیدا کرنے والے دنیا کے چند بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے‘ اس کی چیری‘ خربوزہ‘ گرما‘ تربوز‘ آڑو‘ خوبانی اور سیب کا کوئی جواب نہیں۔ اناج‘ دالیں‘ سبزیاں اور گوشت بھی اضافی اور سستا ہے‘ ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں فروٹ‘ ڈرائی فروٹ‘ اناج اور گوشت کی بڑی بڑی مارکیٹیں ہیں اور ان میں اشیاء خورونوش پاکستان کے مقابلے میں تین سے چار گنا سستی اور انتہائی صاف ستھری ہیں‘ ریستوران بھی سستے ہیں‘ ازبکستان کے فائیو سٹار ریستوران میں تین چار لوگ پچاس سے ستر ڈالر میں کھانا کھا سکتے ہیں اور یہ کھانا تین چار کورس میں ہوگا۔ تین‘ ازبک معاشرے میں توازن ہے‘ وہاں مذہبی طبقہ ڈنڈا لے کر پھر رہا ہے اور نہ ہی لبرل فاشسٹ لوگ سڑکوں پر ہیں‘ مسجد اور ڈسکو دونوں موجود ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو ڈسٹرب نہیں کرتے‘ مسجدیں بھی بھری ہیں اور ڈسکو میں بھی جگہ نہیں ملتی‘ حکومت نے معاشرے کو مذہبی فسادات سے بچانے کے لیے خصوصی بندوبست کر رکھے ہیں‘
آپ صرف مسجد یا پھر گھر میں نماز پڑھ سکتے ہیں‘ دفاتر اور کھلی جگہوں میں نماز کی ممانعت ہے‘ ازبکستان میں تبلیغ اور داڑھی پر بھی پابندی ہے‘ ملک کے زیادہ تر امام مسجد کلین شیو ہیں لیکن حکومت اب یہ پالیسی نرم کر رہی ہے‘ حکومت نے بخارا میں ایک مدرسہ قائم کر دیا ہے‘ اس میں دو سو طالب علم زیر تعلیم ہیں‘ یہ طالب علم تعلیم مکمل کرنے کے بعد مساجد سنبھالیں گے اور انہیں داڑھی رکھنے کی اجازت بھی ہو گی اور چوتھی وجہ‘ ازبکستان کے لوگ قناعت پسند ہیں‘ یہ بنیادی ضرورتوں تک محدود رہتے ہیں‘ دن کو کام کرتے ہیں اور شام کا وقت خاندان کے ساتھ گزارتے ہیں‘ ازبکستان میں چائے خانوں میں بیٹھنے کا رواج عام ہے‘ ہر محلے میں ایک سرکاری چائے خانہ ہے جس میں محلے کے بوڑھے جمع ہو جاتے ہیں اور سارا دن تاش اور شطرنج کھیل کر گزار دیتے ہیں‘ ازبک لوگوں نے خود کو لالچ اور نفسا نفسی سے بچا رکھا ہے‘ یہ بے مہار معاشی دوڑ کا شکار نہیں چناںچہ ازبک معاشرے میں اطمینان بھی ہے اور سکون بھی جب کہ ان کے مقابلے میں آپ پاکستانی معاشرے کو دیکھیں آپ کو ہر چہرے پر ٹینشن اور ڈپریشن نظر آئے گا‘ آپ غریب کے پاس بیٹھ جائیں یا کسی ارب پتی کے پاس وہ آپ کو شکوہ کرتا اور روتا دھوتا دکھائی دے گا‘
ہمارے ملک میں کوئی طبقہ ‘ کوئی کلاس خوش نہیں لہٰذا ازبکستان کی مثال ثابت کرتی ہے اگر معاشرے میں لاء اینڈ آرڈر ہو‘ کھانے پینے کی اشیاء معیاری اور سستی ہوں‘ لوگوں میں توازن اور برداشت ہو اور یہ حرص اور لالچ سے پاک ہوں تو ملک میں اطمینان بھی آ سکتا ہے اور سکون بھی اور اس کے لیے رقم چاہیے اور نہ ہی کوئی ترمیم‘ آپ بس سرکاری مشنری کو ایکٹو کر دیں‘ میرٹ کا خیال رکھیں اور لوگوں کی تربیت کریں ‘ ملک جنت بن جائے گا۔
مجھے ازبکستان کی دو روایات نے زیادہ متاثر کیا‘ پہلی روایت ان کی شادی بیاہ کا سسٹم ہے‘ یہ ہماری طرح جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں‘ بڑوں کا احترام کیا جاتا ہے‘ گھر کے بڑے مرد جب تک پلیٹوں میں کھانانہ ڈال لیں خواتین اس وقت تک کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتیں‘ ہماری طرح ان کی شادی کی رسمیں بھی کئی دنوں تک چلتی ہیں لیکن ان کی ایک روایت ہم سے مختلف بھی ہے اور دل چسپ بھی‘ نکاح کے دن دلہے کے کنوارے دوست اپنی اپنی گاڑیاں لے کر دلہن کے گھر آتے ہیں‘ ان گاڑیوں میں کنوارے دوست کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا‘ یہ لوگ دلہن کو لے کر شادی ہال کی طرف نکلتے ہیں تو دولہے کے دوستوں کی گاڑیوں میں دلہن کی کنواری سہیلیاں بیٹھ جاتی ہیں اور یوں دلہن کے گھر سے لے کر شادی ہال تک نئے رشتوں کی بنیاد پڑ جاتی ہے‘
رشتہ گھر کے بڑے طے کرتے ہیں لیکن لڑکی اور لڑکے کی رضامندی کو سو فیصد اہمیت دی جاتی ہے‘ ازبکستان کی دوسری روایت کا تعلق سیاحوں سے ہے‘ ازبکستان میں سیاح صرف ہوٹل میں رہ سکتے ہیں‘ یہ کسی کے گھر اقامت اختیار نہیں کر سکتے اور اگر کریں تو صاحب خانہ اس کی اطلاع پولیس سٹیشن میں دینے کا پابند ہے‘ ہوٹل کی انتظامیہ ہوٹل چھوڑنے پر سیاح کی آن لائن رجسٹریشن کرتی ہے‘ سیاح اس کے بعد جہاں جاتا ہے یہ ریاست کی نظروں کے سامنے رہتا ہے‘ ازبک حکومت اس بندوبست سے ملک میں داخل ہونے والے تمام غیر ملکیوں کی حرکات پر نظر رکھتی ہے چناںچہ یہ لوگ جاسوسوں سے بچے ہوئے ہیں‘ ازبکستان میں ہر چیز سرکاری کنٹرول میں ہے‘ آپ حکومت کی اجازت کے بغیر جلسہ کر سکتے ہیں‘ جلوس نکال سکتے ہیں اور نہ ہی تقریر کر سکتے ہیں۔
پاکستان اور ازبکستان کے درمیان صدیوں کا رشتہ ہے‘ ہماری زبان کے تیس فیصد الفاظ ازبک ہیں‘ ہمارے کھانوں‘ لباس اور فیملی سسٹم میں ازبکستان کی خوشبو موجود ہے‘ ازبکستان جغرافیائی لحاظ سے بھی پاکستان کے قریب ہے‘ ہم لاہور سے صرف اڑھائی گھنٹے میں تاشقند پہنچ جاتے ہیں‘ ازبکستان قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سفارتی تنہائی کا شکار بھی ہے‘ یہ روس سے خوش نہیں‘ تاجکستان کے ساتھ اس کے آبی اختلافات ہیں‘ افغانستان کے طالبان بھی اسے تنگ کرتے رہتے ہیں‘ ازبک معاشرے میں امریکا کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور بھارت بھی اس کا اعتماد کھو چکا ہے چناںچہ ہم اس صورت حال میں ازبکستان کے دوست بن سکتے ہیں‘ازبکستان کو سمندر تک رسائی چاہیے‘ ہم اگر تھوڑا سا حوصلہ کریں‘ افغانستان اور ازبکستان کو میز پر بٹھائیں اور ترمز سے مزار شریف اور مزار شریف سے گوادر تک سڑک کھول دیں توازبکستان‘ افغانستان اور پاکستان تینوں خوش حال ہو سکتے ہیں‘ ہم ازبکستان کو گوادر تک رسائی دے کر اس سے گیس‘ بجلی اور اناج لے سکتے ہیں‘ ازبکستان کی عمر بمشکل 34 سال ہوئی ہے‘
اسے ترقیاتی کاموں کے لیے بیرونی ہاتھ چاہیے‘ ہم ازبکستان سے اپنے سفارتی رشتے مضبوط کر لیں تو ہمارے ہنر مند اور کمپنیاں ازبکستان میں بہت کام کر سکتی ہیں‘ ازبکستان ترکی کے بعد دنیا کا دوسرا ملک ہے جس کے عوام پاکستانیوں کا احترام کرتے ہیں‘ یہ ہمیں حاجی سمجھ کر ہمارے ہاتھ چومتے ہیں‘ ہم اس عقیدت‘ اس محبت کو سفارتی تعلق میں تبدیل کر سکتے ہیں‘ ہمارے سامنے تعلقات کا پورا سمندر کھلا پڑا ہے‘ ہم اگر اس میں غوطہ نہیں لگاتے تو ہم سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہو گا‘آپ یاد رکھیں قدرت بے وقوف انسانوں کو تو معاف کردیتی ہے لیکن یہ بے وقوف قوموں کو کبھی معاف نہیں کرتی اور ہم ازبکستان کو دوست نہ بنا کر بے وقوفی کریں گے۔