اسلام آباد (این این آئی)مسلم انسٹیٹیوٹ اور انڈونیشیا کے سفارت خانے کے تعاون سے نیشنل لائبریری اسلام آباد میں ”قومی ریاست ، اسلام اور جمہوریت،پاکستان اور انڈو نیشیا کا تناظر”کے عنوان سے کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ۔ کانفرنس میں اندونیشیا کے سفیر رحمت کے ہندریاتا، چیئرمین نہضت العلما انڈونیشیا اولیل ابشر ابدالا ، سابق وفاقی وزیر قانون احمر بلال صوفی ، ایڈہاک ممبر شریعت ایپلیٹ بنچ سپریم کورٹ ڈاکٹر قبلہ ایاز اور سابق سفیر طارق عثمان حیدر ، کوآرڈینیٹر مسلم انسٹیٹیوٹ آصف تنویر ایڈوکیٹ اور کاشف اسلم نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔
مقررین نے کہا کہ اسلامی ریاست کسی خاص طرز حکومت کی بجائے فلاحی ریاست پر زور دیتی ہے ،اسلام کے پہلے چار خلفا کو مختلف طریقہ کار کے تحت ہی منتخب کیا گیا اس طرح کے طریق کار نے معاشرے میں تنوع کو فروغ دیا ۔انہوںنے کہاکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملہ کے بعد مغرب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ شاید اسلام جمہوریت اور ترقی کے لئے خطرہ ہے لیکن اسلامی تعلیمات اور پریکٹس اس بات کی نفی کرتی ہے کیونکہ اسلام میں جمہوریت چودہ سو سال پہلے ہی رائج تھی ۔انہوںنے کہاکہ اسلامی تعلیمات میں حکمرانی کے مقاصد کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے، اور وہ بنیادی طور پر اسلامی قوانین اور ان سے مماثلت کی پابندی پر مبنی ہیں۔انہوںنے کہاکہ اسلام معاشروں میں، حکمرانوں اور نمائندوں کو اسلام مخالف پالیسیاں تشکیل دینے کی اجازت نہیں دیتا جو اسلامی اقدار اور تعلیمات سے متصادم ہوں تاہم بعض نازک حالات میں اسلام حکمران کو بعض بنیادی احکام میں رعایت دینے کی اجازت دیتا ہے لیکن یہ رعایتیں عام حالات میں نہیں دی جا سکتیں۔
انہوںنے کہاکہ اسلام حکمرانی کے لئے مشاورت کی بات کرتا ہے جسے شوری کہا جاتا ہے اس ماڈل کو آج دنیا بھر میں پریکٹس کیا جاتا ہے ، خواہ وہ اقوام متحدہ ہو یا کوئی بھی دوسرا عالمی ادارہ ۔ لیکن جب اصطلاحات کی بات کی جائے تو مغرب کی اصطلاحات ایک خاص تعصب پر مبنی ہیں ،جو ان کے فلاسفہ کی روشنی میں تشکیل دی گئی ہیں ان میں فرسٹ ورلڈ اور تھرڈ ورلڈ ، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر کے لئے قوانین مختلف ہیں۔ انہوںنے کہاکہ یہ اسی فلسفے اور افکار کی بنیاد پر ہیں جنہوں نے لبرل ازم اور جدید لبرل جمہوریت کے نظریات کو جنم دیا ہے، ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قرآن اور اسلام کی تعلیمات کے طرف اپنا رخ کریں جو اخلاقیات ، قوانین ، معاشرت ، تعلیم ، صحت ، معیشت ، بین الاقوامی تعلقات غرض ہر شعبے میں انفرادی اور اجتماعی طور پر رہنمائی فراہم کرتے ہیں ، اگر ہم قرآن کی بات کریں تو تمام قوانین اور ان سے متعلق ہمیں رہنمائی قرآن میں مل جاتی ہے،اگر ہم پاکستان اور انڈونیشیا کے پینل کوڈ کی بات کریں تو اس میں شامل تمام جرائم کو قران پہلے ہی گناہ اور غلط کہتا ہے یہ رہنمائی ہر کسی کے لئے ہے ۔
اس اہم موقع پر پاکستان اور انڈونیشیا دو طرفہ تعلقات میں بین الاقوامی قوانین اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے مشترکہ طور پر کام کر سکتے ہیں اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے سکالرز کا تبادلہ بھی ہونا چاہیئے تاکہ ہم اسلام کے علمی تصورات اور علوم پر تحقیق کریں جو مسلم مما لک خاص طور پر پاکستان اور انڈونیشیا میں مماثل ہیں اور ان کو اپنائیں ۔مسلمانوں کی اپنی بھرپور تاریخ اور اقدار ہیں جو جدت کو اپنانے میں رکاوٹ نہیں ہیں ہمیں جدت کے ساتھ ساتھ اپنی روایات کو بھی اپنانا ہو گا کیونکہ ہماری ترقی کا راز انہی روایات کے ساتھ جڑا ہے ۔ ہمیں جدت اور تاریخی روایت اشتراک کو فراموش نہیں کرنا چاہیے، اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے چیلنجز اور رکاوٹوں کے تمام جوابات مل جائیں گے جنہیں ہم اپنی پانی ریاست اور قوم کے لیے اپنانا ہو گا ۔ سمینار میں مختلف سفارت خانوں کے نمائندگان ، سکالرز، خواتین ، طلبا ، میڈیا کے نمائندگاننے شرکت کی ۔