لاہور: وزیرصحت پنجاب عامر میر نے اپنے بیان میں انکشاف کیا ہے کہ صحت کارڈ پر لوگ ارب پتی بن گئے، اتنے اسٹنٹ ڈالے ملک سے اسٹنٹ ختم ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کارڈ پرپرائیوٹ اسپتالوں کے 100، 100 ارب روپے کے بل بنے پڑے ہیں، صحت سہولت کارڈ سے متعلق خبروں سے غلط تاثر پیدا ہورہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق وزیرصحت پنجاب نے کہا کہ سابق حکومت نے ہیلتھ کارڈ پر400 ارب روپے مختص کیے، ایک مافیہ بنا پرائیوٹ اسپتالوں کے ساتھ کمیشن طے ہوئے، دھڑا دھڑ مریضوں کو پرائیوٹ اسپتالوں میں آپریشن کیلئے بھیجا گیااور خوب پیسا کمایا گیا۔
نگران وزیرصحت پنجاب ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ صحت کارڈ ایک اچھا مثبت قدم تھا، اسے بند نہیں کیا جا رہا، اب صرف بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور سوشل ویلفیئر سے رجسٹرڈ غریب افراد صحت کی سہولت حاصل کرسکیں گے۔انہوں نے کہا کہ صحت سہولت کارڈ کا نام بدلتا رہا، لوگ اس کارڈ پر ارب پتی بن گئے، اتنے اسٹنٹ ڈالے گئے کہ ملک سے اسٹنٹ ختم ہوگئے، جونیئرز ڈاکٹرز نے پرائیوٹ اسپتالوں میں آپریشن کیے، 50 فیصد نارمل ڈلیوری کے سی سیکشن ہوئے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، پورے ملک میں الیکشن ایک ہی دن ہو گا۔ لاہور میں نگران وزیر اطلاعات پنجاب عامر میر اور ڈاکٹر جاوید اکرم نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ عامر میر کا کہنا تھا کہ صحت کارڈ اسکیم نواز شریف کے دور 2015 میں غریبوں کے لیے تھی، اس دور میں ہیلتھ کارڈ پر آپریشن کیلئے 3 لاکھ حد رکھی گئی تھی۔
نگران پنجاب حکومت نے صحت سہولت کارڈ کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس پروگرام کو دوبارہ صرف غریبوں کیلئے مختص کیاجارہاہے اور جو لوگ اپنی جیبوں سے علاج کاخرچہ بھرسکتے ہیں ان کو اب یہ سہولت حاصل کرنے کیلئے کنٹری بیوٹ کرناہوگا،اس کیلئے ایک سالانہ پریمیم ہوگاجس کی حد4300روپے تک ہوگی،جو یہ سہولت لیناچاہیں گے ان کو سالانہ پریمیم اداکرناہوگا، کروڑپتی افرادکوبھی یہ سہولت مفت فراہم کردی گئی،ایک مافیابنتاگیااور نجی سیکٹرکو مریض ریفرہوناشروع ہوگئے اور وہاں کمیشن طے ہونا شروع ہوگئے،
لاہورکے ہی ایک نجی ہسپتال کا93کروڑروپے بل بنا۔ان خیالات کا اظہار نگران صوبائی وزیراطلاعات و بلدیات عامرمیر اور نگران صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم نے ڈی جی پی آر میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ نگران وزیر اطلاعات عامر میر نے کہا کہ صحت سہولت کارڈکے حوالہ سے میڈیاپرچلنے والی خبروں سے عوام میں غلط فہمیاں پیداہورہی ہیں اور یہ تاثردیاجارہاہے کہ شاید موجودہ حکومت نے صحت کارڈپرکارڈیالوجی کی سہولیات ختم کردی ہیں۔بتانایہ تھاکہ بنیادی طورپرصحت سہولت والی سکیم 2015میں سابق وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے شروع کی تھی اور اس وقت یہ سکیم صرف غریب لوگوں کیلئے مختص تھی جو غریب اس وقت علاج نہیں کرواسکتے تھے ان کیلئے تین لاکھ روپے کے مفت علاج کی سہولت رکھی گئی تھی،
بعدمیں جب قیدیوں کے ابوکی پچھلی حکومت آئی تواس نے غریب طبقہ کو سہولت دینے کی بجائے اس پروگرام کیلئے 400ارب روپے مختص کردئیے اورہرکروڑپتی فردکوبھی یہ سہولت مفت فراہم کردی گئی،اسی طرح ایک مافیابنتاگیااور نجی سیکٹرکو مریض ریفرہوناشروع ہوگئے اور وہاں کمیشن طے ہونا شروع ہوگئے،ایک ایک ہسپتال کا سو سوارب روپے بھی بل بنتارہاہے،اب اس پروگرام کو دوبارہ صرف غریبوں کیلئے مختص کیاجارہاہے اور جو لوگ اپنی جیبوں سے علاج کاخرچہ بھرسکتے ہیں ان کو اب یہ سہولت حاصل کرنے کیلئے کنٹری بیوٹ کرناہوگا۔
اس کیلئے ایک سالانہ پریمیم ہوگاجس کی حد4300روپے تک ہوگی،جو یہ سہولت لیناچاہیں گے ان کو سالانہ پریمیم اداکرناہوگا۔ اس موقع پر چیئرمین بورڈآف مینجمنٹ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ڈاکٹرفرقدعالمگیر،سی ای او پنجاب ہیلتھ انشی ایٹومینجمنٹ کمپنی ڈاکٹرعلی رزاق اور ڈی جی پی آرپنجاب روبینہ افضل موجودتھیں۔ڈاکٹرجاویداکرم نے کہاکہ گزشتہ حکومت کے دورمیں صحت کارڈکے مختلف نام بھی بدلتے رہے اور سیاسی جماعتوں کے جھنڈے بھی پرنٹ ہوتے رہے لیکن نگران حکومت نے فیصلہ کیاکہ صحت کارڈپرکسی سیاسی جھنڈے کی ضرورت نہیں اور قومی شناختی کارڈہی صحت کارڈتصورہوگا۔ہم نے اس پروگرام میں بہت ساری بہتری کرناچاہی۔ہم صحت کارڈکوہرگزختم نہیں کررہے۔اچھے پراجیکٹ ہمیشہ چلتے ہیں۔لیکن یہ کوئی قرآن پاک نہیں لکھاگیاکہ تبدیل نہیں ہوسکتا بلکہ اس پروگرام میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجودہے۔اس پروگرام میں جب بہت ساری کوتاہیاں دیکھی گئیں تونگران حکومت نے اس میں بہتری لانے کا فیصلہ کیا۔لو
گ صحت کارڈکی بدولت اربوں پتی بن چکے ہیں۔صحت سہولت کارڈکے علاج کے حوالہ سے بہت ساری بے ضابطگیاں بھی سامنے آئیں۔جس مریض کو ایک سٹنٹ ڈلناتھاوہاں تین تین ڈالے گئے۔بائی پاس سرجری میں بھی ایسی بے ضابطگیاں سامنے آئی ہیں۔پنجاب حکومت کے پاس اربوں روپوں کی مالیت کی طبی مشینری موجودہے۔نجی سیکٹرمیں پیسے بٹورنے کیلئے انجیوگرافی کیلئے اکثر مرمت شدہ مشینیں ہی استعمال کی جاتی ہیں۔حال ہی میں ایک نااہل نے محض پیسے کمانے کی خاطر مریض کی اوپن ہارٹ سرجری کردی۔صحت کارڈسے سب سے زیادہ کارڈیالوجی اور نارمل ڈلیوریزکاعلاج ہورہاہے۔نگران صوبائی وزیرصحت ڈاکٹرجاویداکرم نے مزیدکہاکہ نگران وزیراعلی پنجاب سیدمحسن نقوی لیڈی ولنگڈن،لیڈی ایچی سن اور مدراینڈچائلڈبلاک گنگارام میں ماں اور بچہ کی صحت کو یقینی بنانے کیلئے جلد دس ارب روپے کے منصوبے کا افتتاح کریں گے۔
نجی سیکٹرمیں پیسے بنانے کیلئے سی سیکشن آپریشن زیادہ کئے گئے۔مریضوں کو سٹنٹ بھی غیرمعیاری ڈالے گئے۔نجی سیکٹرمیں صحت کارڈکاانتہائی غلط استعمال کیاگیاہے۔پوری دنیامیں دولت مندلوگ غریبوں کیلئے مالی معاونت کرتے ہیں اور یہاں ہرامیرکوبھی یہ سہولت دے دی گئی ہے۔جب عامرمیرسمیت میرے دیگرساتھی آٹاتقسیم کرنے گئے تو لوگوں کاڈیٹامیں اندراج ہی نہیں تھا۔بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام اورآٹا تقسیم پروگرام کاڈیٹاہمارے پاس اب موجودہے۔محکمہ سوشل ویلفئیروبیت المال کاقلم دان میرے پاس آیاہے توانشا اللہ اس محکمہ میں روزانہ کی بنیادپربہتری لائیں گے۔محکمہ سوشل ویلفیئرکی ذمہ داری ہوگی کہ غربت کی لکیرسے نیچے زندگی بسرکرنے والے افرادکا ڈیٹااکھٹاکرے۔بجلی کاایک لاکھ سے زائد بل بھرنے والاغریب کی فہرست میں شامل نہیں ہوسکتا۔
اب ہر امیرکو صحت کارڈ کی سہولت حاصل کرنے کیلئے سالانہ پریمئیم 4350روپے اداکرناہوگا۔جس کے عوض پہلے کی طرح دس لاکھ روپے کے مفت علاج کی سہولت حاصل ہوگی۔اس کے علاوہ نگران پنجاب حکومت نے غریبوں کیلئے ڈیڑھ ارب روپے کا پیکج بھی لانچ کیاہے۔پنجاب میں صحت کارڈبلاتعطل جاری رہے گا۔پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں انجیوگرافی کی 9جدیدمشینیں دستیاب ہیں۔نگران حکومت نے حلف لینے کے اگلے ہی روز عوام کو پرائمری انجیوپلاسٹی کی سہولت فراہم کردی تھی۔پنجاب کے تمام کارڈیالوجی ہسپتالوں میں دل کی بیماریوں کا علاج مفت ہورہاہے اور جو نجی ہسپتال سے دل کی بیماری کا علاج کرواناچاہے اسے مکمل بل میں سے تیس فیصداداکرناہوگااور باقی کا سترفیصدحکومت اداکرے گی۔پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں میں بہترین انفراسٹرکچرموجودہے۔نگران حکومت صحت کارڈ میں مزیدبہتری لاناچاہتی ہے۔
نگران صوبائی وزیرصحت ڈاکٹرجاویداکرم نے اس موقع پر صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرزکواپنے ہی ہسپتالوں میں پریکٹس کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔پنجاب ہیلتھ کئیرکمیشن نے لاقانونیت کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔پنجاب کے تمام تعلیمی اداروں میں سکریننگ کرنے جارہے ہیں۔ پنجاب کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں خدمت گارڈیسکس کاقیام کرنے جارہے ہیں۔ وہیں پرہیلتھ کئیرکمیشن کا ڈیسک بھی قائم کیاجارہاہے۔وہاں سوشل ویلفئیرافسران بھی بیٹھاکریں گے۔وہ ہسپتالوں میں آنے والے ہرمریض کیلئے سہولت کارثابت ہوں گے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان جب کہے گا ہم انتخابات کروادیں گے۔ہمارے ذمے صرف اور صرف صاف اور شفاف انتخابات کاانعقادہے۔وفاق اور صوبوں میں ایک ساتھ انتخابات کروانے کا فیصلہ ہوچکاہے۔میں اور میراکوئی کیبنٹ ممبرتنخواہ نہیں لے رہا۔لاہورکے ہی ایک نجی ہسپتال کا93کروڑروپے بل بنا۔نگران پنجاب حکومت نے آنے کے پندرہ دن بعد ایک ڈیش بورڈڈیزائن کیا جس کے ذریعے ادویات کی کمی کوترجیحی بنیادوں پر پوراکیاجاسکے گا۔ہرسرکاری ہسپتا ل کو ایل سی کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ہم اداروں کو خودمختاربناناچاہتے ہیں۔