فواد چودھری سچ کہہ رہے ہیں

25  جون‬‮  2020

مارگریٹ تھیچر 11سال برطانیہ کی وزیراعظم رہیں‘ وہ لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھیں‘ والد پنساری تھا‘ مشکل حالات میں سیاست میں آئیں‘ قدم قدم چلتی ہوئیں یورپ کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں اور پھر آئرن لیڈی کہلائیں‘ تھیچر کا دور ایک مشکل زمانہ تھا‘ برطانیہ فاک لینڈ پر ارجنٹائن سے برسر پیکار تھا‘ تھیچر نے یہ جنگ جیت لی۔

آئرش ری پبلکن آرمی (آئی آر اے) نے برطانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تھی‘تھیچر دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بھی کود پڑیں‘ ان پر حملہ ہوا اور وہ اس میں بال بال بچ گئیں لیکن بہرحال آئر لینڈ کا ایشو بھی ختم ہو گیا‘ وہ تین بار وزیراعظم منتخب ہوئیں ‘ برطانیہ کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصہ تک حکومت کی اور برطانیہ کی تاریخ کی پہلی لیڈی اپوزیشن لیڈر بھی بنیں لہٰذا وہ ہر لحاظ سے برطانیہ کی کام یاب ترین سیاست دان اور وزیراعظم ثابت ہوئیں‘ مارگریٹ تھیچر کے بارے میں عام تاثر تھا وہ ایک عام سطحی ذہانت کی مالک ہیں‘ یادداشت بھی اچھی نہیں‘ قوت فیصلہ بھی کم زور ہے اور ان کی شخصیت میں بھی کوئی کشش‘ کوئی کرشمہ نہیں لیکن وہ اس کے باوجود کام یاب سیاست دان اور وزیراعظم ثابت ہوئیں‘ انہوں نے برطانیہ کی سیاسی تاریخ میں ریکارڈ بھی قائم کر دیا‘لوگ اسے ان کی قسمت کہتے تھے! تھیچر کی یہ خوش قسمتی ایک بار کسی ٹیلی ویژن شو میں بھی ڈسکس ہوئی۔

شو کے ہوسٹ نے مسکرا کر مارگریٹ تھیچر کی طرف دیکھا اور کہا ”میں سمجھتا ہوں آپ کو خوش قسمتی سے مشیر اور وزیر اچھے مل گئے تھے‘ ان مشیروں نے آپ کو آئرن لیڈی بنا دیا“مارگریٹ تھیچر مسکرائیں اور کہا ”ہاں آپ کا تجزیہ سو فیصد درست ہے اگر مجھے اچھے وزیر اور مشیر نہ ملتے تو میں یقینا کام یاب نہ ہوتی لیکن سوال یہ ہے یہ مشیر اور وزیر تلاش کس نے کیے تھے‘ انہیں سلیکٹ کس نے کیا تھا اور انہیں کام کرنے کی لبرٹی کس نے دی تھی؟“ ۔

وہ خاموش ہو کر میزبان کی طرف دیکھنے لگیں‘ میزبان نے قہقہہ لگایا اور کہا ”یقینا آپ نے“ تھیچر ہنس کر بولیں ”اچھی ٹیم ملتی نہیں تلاش کرنی پڑتی ہے اور میں نے ان لوگوں کو تلاش کیا تھا چناں چہ اصل کمال‘ اصل کارنامہ میرا تھا“ وہ رکیں اور بولیں ”دنیا میں لیڈر کا صرف ایک کام ہوتا ہے اچھی ٹیم بنانا‘ یہ اگر اس میں کام یاب ہو جائے توپھر اسے ساری کام یابیاں مل جاتی ہیں اور اگر یہ ٹیم بنانے میں ناکام ہو جائے تو پھر یہ کتنا ہی ذہین‘ بہادر‘ ایمان دار اور وژنری کیوں نہ ہو جائے یہ مار کھا جاتا ہے“۔

آپ جس دن موجودہ حکومت کا تجزیہ کریں گے آپ کو وزیراعظم عمران خان بھی ٹیم کے ہاتھوں مار کھاتے نظر آئیں گے‘ ٹیم کے معاملے میں عمران خان کا بنیادی فلسفہ ہی غلط تھا‘ یہ ماضی میں بار بار کہتے تھے اگر لیڈر اچھا ہو تو نیچے ٹیم خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہے‘ یہ فرماتے تھے مچھلی ہمیشہ سر سے گلنا شروع ہوتی ہے لیکن وقت نے ان کا یہ فلسفہ غلط ثابت کر دیا۔

تجربے سے ثابت ہوا ٹیم لیڈر خواہ کتنا ہی نالائق ہو یہ اگر ٹیم اچھی بنا لے تو یہ کام یاب ہو جاتا ہے اور ٹیم ہمیشہ تجربہ کار‘ ذہین اور گہرے لوگوں کی بنائی جاتی ہے‘اگر لیڈر بھی ناتجربہ کار ہو اور یہ اپنے گرد ٹیم بھی نا تجربہ کار لوگوں کی جمع کر لے تو پھرکیا نتیجہ نکلے گا؟ وہی نکلے گا جو اس وقت نکل رہا ہے اور فواد چودھری یہی رونا رو رہے ہیں۔

آپ فواد چودھری کے انٹرویو کے بعد صورت حال ملاحظہ کیجیے‘ وزراءآف دی ریکارڈ اس انٹرویو کو کلمہ جہاد کہہ رہے ہیں اور کیمروں کے سامنے فواد چودھری کے خیالات کی مذمت کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے فواد چودھری کی کون سی بات غلط ہے؟ عمران خان کے بعد پارٹی میں تین سینئر ترین لیڈر تھے‘ شاہ محمود قریشی‘ اسد عمر اور جہانگیر ترین‘ کیا یہ سچ نہیں عمران خان ان تینوں کو بھی اکٹھا نہیں چلا سکے۔

یہ تینوں حکومت بننے سے پہلے ایک دوسرے سے لڑنا شروع ہوئے تھے اور یہ آج تک لڑ رہے ہیں‘ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی لڑائی جلسوں اور چینلز تک پہنچ گئی تھی اور یہ تماشا پوری دنیا نے دیکھا تھا‘ کیا یہ سچ نہیں؟ کیا یہ بھی سچ نہیں عمران خان کو جہانگیر ترین نے اسد عمر سے جان چھڑانے کا مشورہ دیا تھا اور جب مقتدر حلقوں نے اسد عمر پر اعتراض کیا تو عمران خان نے جہانگیر ترین کے کہنے پر اسد عمر کو سائیڈ لائین کر دیا تھا۔

جہانگیر ترین پچھلے دو ماہ سے یہ بھی کہہ رہے ہیں اسد عمر نے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان اور شہزاد اکبر کے ذریعے مجھے فارغ کرایا‘ آپ تھوڑی سی تحقیق کر لیں آپ بہت جلد اس شخص تک بھی پہنچ جائیں گے جس نے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بتایا تھا جہانگیر ترین بھی مولانا فضل الرحمن کو دھرنے پر قائل کرنے والوں میں شامل تھے اور کیا پارٹی کو یہ معلوم نہیں شاہ محمود قریشی اور اسد عمر وزیراعظم بننے کے لیے باقاعدہ لابنگ کر رہے ہیں اور ان دونوں نے پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت سے بھی رابطہ کیا تھا۔

کیا یہ بھی سچ نہیں حکومت غیر منتخب لوگوں کے ہاتھ میں ہے‘ مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اور گورنر سٹیٹ بینک رضا باقرقاہرہ میں آئی ایم ایف اور ڈبلیو ایچ او کے نمائندے تھے‘ پاکستان کی ایک اہم شخصیت دورے پر مصر گئی‘ یہ دونوں سفیر پاکستان کے گھر اس شخصیت سے ملے‘وہ ان دونوں کو پاکستان لے آئے۔ حکومت کے حوالے کر دیا اور وزیراعظم کی ان دونوں سے وزیراعظم آفس میں پہلی ملاقات ہوئی تھی۔

اور یہ لوگ ملکی معیشت اورہیلتھ سسٹم کو وہاں لے آئے ہیں جہاں سے پوری دنیا ہمیں خوف سے دیکھ رہی ہے لیکن وزیراعظم سمیت کسی میں ان سے سوال کی جرات نہیں! حکومت کے ایک تیسرے مشیر کے بارے میں سعودی عرب نے کہہ دیا تھا‘ وزیراعظم جب سعودی عرب تشریف لائیں تو یہ اسے ساتھ نہ لایا کریں‘ حکومت نے وجہ پوچھی تو آف دی ریکارڈ بتایا گیا گزشتہ دورے کے دوران شاہی گاڑی میں وزیراعظم سے ایک بات کی گئی تھی‘ وہ بات ایران پہنچ گئی‘ سعودی انٹیلی جنس کا خیال ہے یہ بات مشیر نے وہاں پہنچائی تھی کیوں کہ اس وقت گاڑی میں ان کے علاوہ کوئی چوتھا آدمی موجود نہیں تھا۔

چوتھے مشیر عبدالرزاق داﺅد نے مہمند ڈیم کا ٹھیکہ لے لیا اور وہ بھی 309ارب روپے میں ‘ کراچی سٹیل ملز کا ڈھول بھی اب داﺅد صاحب کے گلے بندھ رہا ہے‘ چینی سکینڈل میں بھی خسرو بختیار اور وزیراعلیٰ پنجاب کے ساتھ ساتھ عبدالرزاق داﺅد کا نام آ رہا ہے‘ پارٹی ہو یا میڈیا چیخ چیخ کر وزیراعظم کی توجہ مشیروں کی طرف مبذول کرا رہا ہے لیکن یہ سننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

حکومت کے چھ اتحادی ہیں‘ آپ ان سے بھی پوچھ لیں یہ بھی سر پر ہاتھ رکھ کر بتائیں گے وزیراعظم اول ملتے نہیں ہیں اور یہ اگر مل لیں تو یہ سنتے نہیں ہیں‘یہ تھوڑی دیر دائیں بائیں دیکھتے ہیں اور پھر اٹھ کر چلے جاتے ہیں‘ پارٹی کے پرانے ورکرز اور ایم پی ایز‘ ایم این ایز بھی یہی شکوہ کرتے ہیں‘ وزیراعظم قومی اسمبلی میں بھی قدم رنجہ نہیں فرماتے۔

پوری کابینہ اور سٹاف میں کسی میں ان کے سامنے بولنے کی جرات نہیں‘ معیشت کے 37 مشیروں نے مل کر صنعت‘ تجارت اور سٹاک ایکس چینج کا بیڑا غرق کر دیا‘ زرعی ملک گندم امپورٹ کرنے والے ملکوں میں شامل ہو گیا‘ مافیاز نے آٹے میں بھی اربوں روپے کے ہاتھ مار لیے اور چینی کے ساتھ کھیل کر بھی دو سو ارب روپے کی دیہاڑی لگا لی۔

حالت یہ ہے ملک سے اچانک پٹرول غائب ہو گیا‘ وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب اور پٹرولیم کے مشیر ندیم بابر سے پوچھا گیا تو ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ وزیراعظم نے 48 گھنٹوں میں پٹرول پورا کرنے کا حکم دیا‘ اس حکم کو 16دن ہو چکے ہیں لیکن پٹرول پورا نہیں ہو سکا‘ دنیا کورونا پر قابو پا کر اپنے ملک کھول رہی ہے جب کہ ہم پوری دنیا کے لیے بند ہو رہے ہیں۔

ہم اپنی شان دار پالیسی کے ذریعے کورونا کو اکتوبر نومبر تک لے جا رہے ہیں‘ ہم شاید اس وقت دنیا کے واحد ملک ہوں گے جس میں دسمبر میں بھی کورونا کے مریض موجود ہوں گے اور ہمارے وزیراعظم ”میں لاک ڈاﺅن کے خلاف ہوں“ کے دعوے بھی فرما رہے ہوں گے‘ آ پ دنیا کی ”ناکام پالیسیاں“ دیکھیے‘ دنیا نے مارچ میں لاک ڈاﺅن شروع کیا اور تین ماہ بعد جون میں کورونا پر قابو پا لیا جب کہ ہماری ”کام یاب پالیسیوں“ نے اس مرض کو آٹھ ماہ تک پھیلا دیا اور ہم اس پر ڈھول بھی بجا رہے ہیں چناں چہ فواد چودھری کی کون سی بات‘ کون سا اندازہ غلط ہے؟۔

میں ان کا فین تھا لیکن میں اب ان کا بہت بڑا فین ہو چکا ہوں‘ حکومت کے اندر رہ کر حکومت کے بارے میں ایسی کلیئر لائین لینا آسان نہیں ہوتا‘ اس کے لیے شیر کا کلیجہ چاہیے ہوتا ہے اور فواد چودھری نے خود کو شیر ثابت کر دیا‘ چودھری صاحب نے پوری پارٹی کو بتادیا میں جینوئن سیاست دان بھی ہوں اور پارٹی کا وفادار بھی لہٰذا میں کل سے ان کی زیادہ عزت کر رہا ہوں‘ وزیراعظم کو چاہیے یہ ان کی بات غور سے سنیں اور آنکھیں کھولیں ورنہ ملک اور پارٹی دونوں تباہ ہو جائیں گے۔

میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری اور ان سے پہلے بے نظیر بھٹو شکوہ کرتی تھیں ہمیں ہر بار حکومت ملی ‘ اقتدار نہیں ملا لیکن آج پاکستان تحریک انصاف کے وزراءاپنے منہ سے کر کہہ رہے ہیںپچھلی حکومتوں کو اقتدار نہیں ملتا تھا جب کہ ہمیں تو حکومت بھی نہیں ملی ‘ اس فیلیئر‘ اس سانحے کاکون ذمہ دار ہے؟ اس کا صرف ایک ہی شخص ذمہ دار ہے اور وہ ہے عمران خان۔

وزیراعظم کو اگر ٹیم اچھی نہیں ملی تو یہ ان کا قصور ہے‘ عوام نے انہیں مینڈیٹ دے دیا تھا اور ریاست نے ان کے راستے کے سارے کانٹے نکال دیے تھے لیکن یہ اگر اس کے باوجود ڈیلیور نہیں کر سکے‘ یہ اگر اس کے باوجود پٹرول‘ چینی اور آٹا کنٹرول نہیں کر سکے تو یہ پھر کس کا قصور ہے؟صرف اور صرف عمران خان کا لہٰذا میں سمجھتا ہوں پانچ چھ ماہ بہت دور ہیں۔

حالات کا بلڈوزر کسی بھی وقت اس حکومت کو کچل دے گا‘ تنکوں کی ڈور کھل رہی ہے‘ یہ کسی بھی وقت گر جائے گی اور حکومت اس کے بعد تنکا تنکا ہو کر بکھر جائے گی اور اس کے بعد ذہین ترین وزراءزرتاج گل کے ساتھ بیٹھ کر کووڈ 19 کے 19 پوائنٹس گنتے رہ جائیں گے۔



کالم



مشہد میں دو دن (دوم)


فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…

ہم بھی کیا لوگ ہیں؟

حافظ صاحب میرے بزرگ دوست ہیں‘ میں انہیں 1995ء سے…

مرحوم نذیر ناجی(آخری حصہ)

ہمارے سیاست دان کا سب سے بڑا المیہ ہے یہ اہلیت…

مرحوم نذیر ناجی

نذیر ناجی صاحب کے ساتھ میرا چار ملاقاتوں اور…

گوہر اعجاز اور محسن نقوی

میں یہاں گوہر اعجاز اور محسن نقوی کی کیس سٹڈیز…