اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، تجزیہ کار اور کالم نگار سہیل وڑائچ بی بی سی کیلئے اپنے آج کے کالم ”کیا جہانگیر ترین دوبارہ سے عمران خان کے لیے اہم ترین بن سکیں گے؟”میں لکھتے ہیں کہ ماضی میں تحریک انصاف کی سیاست کے اہم ترین کردار، جہانگیر ترین فی الحال
خاموش اور پس پردہ ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ غیر متحرک اور صورتحال سے لا تعلق ہیں۔وہ روزانہ اہل سیاست سے رابطے میں ہوتے ہیں اور اپنے پرانے ساتھیوں اور اہم بیورو کریٹس اور ریاستی ذمہ داروں سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ سیاست ، معیشت اور گورننس کے معاملات پر اپنے ملاقاتیوں سے نہ صرف گپ شپ لگاتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد ہونے والی نا اہلیوں پر قہقہے بھی لگاتے ہیں۔جہانگیر ترین شوگر سکینڈل کے بعد جب بیرون ملک گئے تو ان کی عمران خان سے ملاقاتیں اور بات چیت بند تھی مگر بیرون ملک قیام کے دوران ان کا عمران خان سے رابطہ بحال ہو گیا تھا۔کسی زمانے میں وہ تحریک انصاف اور حکومت میں عمران خان کے نمبر ٹو سمجھے جاتے تھے لیکن اب ان کا رسوخ نہیں رہا کیونکہ عمران خان کی کچن کابینہ کے ارکان اعظم خان ، شہزاد اکبر اور اسد عمر سے ان کی نہیں بنتی اور یہ ساری لابی جہانگیر ترین اور عمران خان میں فاصلے برقرار رکھنا چاہتی ہے ۔ان تمام رکاوٹوں کے باوجود
جہانگیر ترین گو دوبارہ سے اہم ترین تو نہیں بن سکے مگر وہ عمران خان سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ٹیلی فون پر براہ راست پیغامات کا تبادلہ ہوتا ہے اور بالواسطہ طور پر ترین صاحب مشورے بھی بھجوادیتے ہیں جن میں سے اکثر مشورے من و عن تسلیم بھی کر لیے جاتے ہیں۔
باخبر ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں چینی کی قیمت میں اضافہ ہونے لگا تو جہانگیر ترین نے براہ راست خان کو یہ پیغام بھیجا کہ ‘چینی کی قیمت پھر سے بڑھنے والی ہے۔ آپ فوری طور پر وفاقی وزیر حماد اظہر کو کہیں اجلاس بلا کر چینی امپورٹ کرنے کا فیصلہ کرے کیو نکہ کل
کو قیمت بڑھی تو الزام مجھ پر لگے گا اس لیے اس کا بندوبست کرلیں۔’ذرائع کے مطابق اعظم خان نے جہانگیر ترین کی اس تجویز پر فورا عمل کیا اور یوں شوگر کا ایک نیا بحران وقتی طور پر ٹل گیا ۔تحریک انصاف کے رہنما اور فیصل آبادسے رکن قومی اسمبلی راجہ ریاض نے
تجویز دی ہے کہ آنے والے سینیٹ الیکشن میں پی ٹی آئی کو کامیاب کروانے کے لیے ضروری ہے کہ جہانگیر ترین کو متحرک کیا جائے۔راجہ ریاض اور پارٹی کے کئی رہنما چاہتے ہیں کہ جہانگیر ترین ایک بار پھر تحریک انصاف کے لیے اسی طرح متحرک ہوجائیں جیسے وہ حکومت سازی
کے وقت تھے۔جبکہ دوسری طرف جہانگیر ترین یہ طے کیے بیٹھے ہیں کہ وہ اب صرف اسی صورت میں متحرک ہوں گے اگر انھیں فل چارج ملے گا۔ وہ چاہتے ہیں اگر وہ متحرک ہوں تو پھرگورننس میں بہتری کے نتائج بھی دے سکیں۔صرف ایک وقتی ٹاسک کے لیے وہ اپنی خود ساختہ
خاموشی توڑنے کو تیار نہیں۔ اس کے بجائے وہ ‘دیکھو اور انتظار کرو’ کی پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے تا وقتیکہ سیاسی طور پر ماحول ان کے لیے ساز گار ہو جائے ۔پاکستان میں سیاسی اختلاف بالآخر شخصی اختلاف میں تبدیل ہو جاتا ہے اور شخصی اختلاف تعلقات میں ایسی تلخیاں گھول
دیتے ہیںکہ ان کو بھلانا مشکل ہو جاتا ہے۔ایک وقت تھا کہ خان اعظم اور ترین یک جان دو قلب ہوا کرتے تھے۔ سیاست اور شخصیات کے بارے میں آپس کے نوٹس اور خیالات ملا کر چلتے تھے۔مگر پھر ایسا وقت آیا کہ خان اعظم کو کابینہ کے بھرے اجلاس میں ترین کے بد خواہوں نے
بتایا کہ ترین نے بھی دوسرے صنعت کاروں کی طرح متوازی حسابات بنا رکھے ہیں۔ٹیکس اور قانونی معاملات میں اور حساب دکھائے جاتے ہیں جبکہ اصل حسابات چھپا کر رکھے جاتے ہیں۔اس اطلاع کے بعد ترین کے سسٹم کو تشکیل دینے والے انجینیئر کو گرفتار کر لیا گیا اور اس پر
زور دیا گیا کہ وہ تسلیم کرے کہ ترین نے دو متوازی حسابات بنا رکھے ہیں۔ جب اس انجینیئر نے صاف کہہ دیا کہ یہ بات درست نہیں اس لیے میں بیان کیسے دوں تب جا کر یہ معاملہ رکا۔جہانگیر ترین مسلسل لاہور ، اسلام آباد اور آبائی علاقے میں قیام کرتے اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھے
ہوئے ہیں۔راجہ ریاض نے تو خیر کھلے عام جہانگیر ترین کو سیاسی طور پر متحرک کرنے کا اعلان کیا ہے وگرنہ درجنوں ایم این ایز اور ایم پی ایز ڈھکے چھپے الفاظ میں جہانگیر ترین کو یہی مشورے دیتے ہیں کہ وہ ماضی کی طرح متحرک ہوں اور سیاسی طور پر تحریک انصاف
کو بحرانی صورتحال سے نکالیں۔ان ارکان اسمبلی کو یقین ہے کہ اگر جہانگیر ترین متحرک ہو گئے تو تحریک انصاف نہ صرف سینیٹ میں اکثریت حاصل کرلے گی بلکہ پیپلز پارٹی، ن لیگ اور دوسری جماعتوں کے کئی اراکین بھی خفیہ طور پر تحریک انصاف کو ووٹ دینگے۔ترین
کے حامی کہتے ہیں کہ مسٹر ترین دراصل ‘Mr. Do All’ ہیں۔ اپنے اتحادیوں کے ساتھ جوڑ توڑ ہو یا حکومت سازی کے وقت آزاد اراکین کو پی ٹی آئی میں لانے کے لیے ان کی کوششوں کا ذکر ہو، ہر معاملے میں انھوں نے جادوگر کا سا کردار اد کیا۔ایک رکن اسمبلی نے کہا ترین اور کپتان
ملکر ایک بہترین ٹیم بناتے تھے۔ ترین کے جانے سے خالی ہٹ مارنے والا رہ گیا، پاس دینے والا کوئی نہیں۔ اس رکن اسمبلی کے مطابق ترین، عمران کو والی بنا کر دیتا تھا جس پر عمران کک مارتا تھا اب والی کوئی نہیں بنا کر دیتا اسی لیے خالی کک صحیح جگہ پر جا کر نہیں گرتی۔
بظاہر یوں لگ رہا ہے کہ جہانگیر ترین باوجود ارکان اسمبلی کے مطالبوں کے سینیٹ الیکشن میں متحرک نہیں ہوں گے۔وہ شاید ان اچھے دنوں کا انتظار کرینگے جب انھیں فری ہینڈ ملے اور وہ کچن کابینہ میں اپنے مخالفوں سے چھٹکارا پا کر حکومتی گورننس میں کچھ حصہ ڈال سکیں۔
ترین اور کپتان کے درمیان شگاف ڈالنے کی جو کوشش ہوئی تھیں وہ کافی حد تک دم توڑ چکی ہیں اور کافی حد تک شگاف پر بھی ہو چکا ہے۔ مگر تہہ میں کچھ چنگاریاں ایسی موجود ہیں جن سے تعلقات کا مکمل بحال ہونا مشکل لگتا ہے۔ ترین کی سیاست سے نا اہلی کا فیصلہ وہ کاری ضرب ہے
جسکی کاٹ جہانگیر ترین اور ان کے حامیوں کو سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سب ایک مبینہ سواپ کے نتیجے میں ہوا جس مں خان کو اہل اور ترین کو نا اہل قرار دیا گیا۔ فیصلے سے پہلے اور بعد میں اس کڑوے ترین گھونٹ کو یہ کہہ کر میٹھی ٹافی بنا یا گیا کہ ‘ایک
وکٹ ہی گری ہے میچ تو جیت لیں گے’۔ ترین ابھی تک اس کڑوے گھونٹ اور بقول شیکسپئر ‘Cruellest Cut’ کو بھول نہیں سکے اور انھیں بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ کپتان نے اپنی جیت کے لیے اپنے قریبی ساتھی کی قربانی دیکر اس کا سیاسی کیر ئیر تباہ کر دیا۔ تعلقات کی تہہ
میں چھپی یہ چنگاری کبھی انگارہ بن کر ان کو ایک دوسرے کے سامنے بھی لا سکتی ہے مگر چونکہ کپتان اور ترین عملی سیاست کے تقاضے بخوبی جانتے ہیں اس لیے حالات بدلنے تک دونوں اپنے اندر چھپے اختلافات کو دبائے رکھیں گے اور بظاہر کوشش کریں گے کہ چنگاریاں آگ نہ پکڑ سکیں۔