اسلام آباد (مانیٹرنگ، این این آئی) قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ کی بالادستی اور چیف جسٹس کے ازخود نوٹس سے متعلق 8 رکنی بینچ کو تحلیل کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی۔حکمران اتحاد نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف درخواستیں سماعت کیلئے مقرر ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ
قانون بننے سے قبل ہی بل پر ایک سلیکٹیو بینچ بنا کر سماعت کیلئے مقرر کیا گیا ہے،بینچ کی تشکیل میں سنیارٹی کا اصول مدنظر نہیں رکھا گیا،جب آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے بعد پنجاب حکومت کی تبدیلی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں آیا تو اس وقت بھی مطالبہ کیا گیا فل کورٹ تشکیل دیں،چیف جسٹس کے اختیارات کی بابت بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کا یہ دیرینہ مطالبہ تھا، سول سوسائٹی کی طرف سے بھی یہ بات آئی،ٹکراؤ کی کیفیت پارلیمان کی طرف سے نہیں ہے،ہم عوام کا حق کمپرومائز نہیں ہونے دیں گے، ہم اپنے حقوق اور اس کا تحفظ کرنا بھی جانتے ہیں، ہمیں ایک سپریم کورٹ چاہیے، ہم دو سپریم کورٹس کی بات نہیں کرتے، ادارے میں تقسیم کا تاثر روز بروز عیاں ہوتا جارہا ہے۔ جمعرات کو یہاں حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں قمرزمان کائرہ، جے یو آئی کے کامران مرتضیٰ، عوامی نیشنل پارٹی کے میاں افتخار حسین و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ موجودہ حالات پر بات کرنا اس لیے مقصود ہے کہ کئی چہ مگوئیاں ہوتی ہیں اور سوالیہ نشانات ہیں اور مؤقف پر بھی بات کی جاتی ہے، اسی لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ میڈیا سے بات کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بڑے افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ بات کر رہے ہیں کہ آج غیرروایتی کام کیا گیا ہے اور سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی جو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023کے حوالے سے ہے،
جو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروایا گیا اور صدر کو بھیج دیا گیا لیکن وہاں واپس بھیج دیا گیا تو مشترکہ اجلاس میں بحث کے بعد منظوری کیلئے دوبارہ صدر مملکت کو بھجوا دیا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ آئین کے تحت صدر مملکت اس پر مزید 10 دن یعنی 19 یا 20 اپریل تک جائزہ لے سکتے ہیں اور صدر نے دستخط نہیں کیے تو اور ایکٹ آف پارلیمنٹ میں تبدیل نہیں ہوا
اور قانون بننے سے پہلے ہی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی اور وہ سماعت کے لیے مقرر کردی گئی۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سماعت کیلئے 8 رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا، ہم نے ماضی میں دیکھا کہ کبھی بھی قانون سازی سے پہلے سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا جاتا ہے، اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو پھر اس کو چیلنج کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ جس طرح عجلت میں یہ مقدمہ مقرر کیا گیا
اور یہ بینچ بنایا گیا، اس میں بھی بارہا پارلیمان اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اور بار کونسلز نے بھی مطالبہ دہرایا اور گزشتہ ایک برس سے کئی مواقع پر کیا گیا۔وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ جب آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے بعد پنجاب حکومت کی تبدیلی کا مقدمہ سپریم کورٹ میں آیا تو اس وقت بھی مطالبہ کیا گیا فل کورٹ تشکیل دیں کیونکہ یہ ایک اہم قومی معاملہ ہے لیکن اس وقت بھی لارجر بینچ یا فل کورٹ نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ اس وقت سپریم کورٹ بار کے 7 سابق صدور نے مطالبہ کیا حالانکہ عدلیہ کی آزادی کے لیے بار کا کردار رہا ہے اور اس کے بعد بھی کئی مواقع آئے لیکن فل کورٹ نہیں بنایا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ ساری صورت حال بہت الارمنگ ہے، موجودہ بل کو قبل از وقت ایک سلیکٹیو بینچ کے سامنے لگانا، جس میں سینیارٹی کے تمام اصول نظرانداز کیے گئے ہیں اور دو سینئرترین جج صاحبان اس میں نہیں ہیں، پانچویں، ساتویں اور آٹھویں نمبر پر موجود سینئر جج اس بینچ میں شامل نہیں ہیں بلکہ پک اینڈ چوز کے ذریعے 8 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا۔
اجلاس میں رکن اسمبلی آغا رفیع اللہ کی جانب سے سپریم کورٹ سے متعلق اور پارلیمنٹ کی بالا دستی سے متعلق قرارداد پیش کی،قرارداد میں سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل کو سماعت کے لیے بینچ مقرر کرنے کی مذمت کرتے ہوئے 8 رکنی بینچ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔آغا رفیع اللہ کی جانب سے قرارداد میں کہا گیا کہ یہ پارلیمنٹ آئین ساز ادارہ ہے، آئین سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، یہ سپریم کورٹ کی مداخلت کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے، سپریم کورٹ غیر منصفانہ فیصلے کر رہی ہے، یہ ایوان سپریم کورٹ بل کی درخواست لینے کی مذمت کرتا ہے اور اس بینچ میں سینئر ترین جج کو شامل نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔اس موقع پر آغا رفیع اللہ کی قرار داد کو قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے منظور کر لیا۔