اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، تمام صوبوں کی ہائی کورٹ بارز، پاکستان بار کونسل، صوبائی بار کونسلز اور جوڈیشل کمیشن کے رکن و نامزد ارکان نے اپنی ایک مشترکہ قرارداد میں مطالبہ کیا ہے کہ آئین کی شق 175 اے اور شق 209 میں ترامیم کی جائیں
تاکہ ججز کی تقرری اور برطرفی کا فورم ایک ہو سکے اور اس میں ججز، بار، انتظامیہ اور پارلیمان سب کی مساوی نمائندگی ہو۔بی بی سی کے مطابق وکلا نے مطالبہ کیا کہ آئین کی شق 175 (2) اور 191 میں ترمیم کر کے بینچز کی تشکیل، مقدمات کی تاریخ معین کرنے اور سو موٹو لینے میں چیف جسٹس کو حاصل مکمل اختیار ختم کر کے عدالت کے پانچ سینئر ترین ججز کو دیا جائے۔آئینی ماہرین نے کہاکہ پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کر کے یا ایکٹ کے ذریعے سپریم کورٹ کے معاملات کو ریگولرائز کر سکتی ہے جس میں بینچز کی تشکیل اور انتظامی معاملات بھی شامل ہیں۔یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی طرف سے یہ بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے یا ان کے امور کی نگرانی کرنے کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی قیادت کو اعلیٰ عدالتوں میں ججز تقرریوں اور ترقیوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز دی تھی۔پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 176 سے آرٹیکل 191 تک سپریم کورٹ سے متعلق ہیں اور آئین کا آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ عدالتی اْمور نمٹانے کے لیے طریقہ کار بنا سکتی ہے۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مقننہ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ اس قانون میں ترمیم کر کے سپریم کورٹ کو اس بات کی پابند کر سکتی ہے کہ وہ انتظامی معاملات اور مختلف مقدمات کی سماعت کے لیے بینچز کی تشکیل آئین کے مطابق کرے۔انھوں نے کہا کہ اس حوالے سے ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی بھی ضرورت نہیں ہے بلکہ پارلیمنٹ کی سادہ اکثریت سے بھی اس کو قانون کا درجہ دیا جا سکتا
ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعیناتی سے متعلق پاکستان کے چیف جسٹس یا متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس کسی بھی وکیل کو ہائی کورٹ کا جج مقرر کرنے یا پھر کسی ہائی کورٹ کے جج کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنے کیلئے نام تجویز کرنے کا اختیار ہے تاہم یہ اختیار بھی قانون سازی کے ذریعے واپس لیا جا سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سب سے زیادہ سپریم ہے کیونکہ آئین اسی پارلیمنٹ نے بنایا
ہے اور تمام ادارے اسی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین کے ہی تابع ہیں۔فرحت اللہ بابر نے اپنی ٹویٹ میں کہا تھا کہ پارلیمنٹ نے اس وقت غلطی کی جب 18ویں ترمیم میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر اصرار نہیں کیا اور پیچھے ہٹتے ہوئے 19ویں ترمیم کو اپنایا۔آئینی ماہر حامد خان کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ میں ہونے والی عدالتی کارروائی پر چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھ سکتی البتہ اس کے لیے اسی طرح کا ایکٹ بنا سکتی ہے جس طرح کا
ایکٹ انڈیا میں موجود ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان میں سپریم کورٹ کے رولز بنائے گئے ہیں،حامد حان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ ایکٹ کے تحت اہم مقدمات کی سماعت کے لیے بینچز کی تشکیل کیسے ہو گی اور کون سے جج کس نوعیت کے کیسز سْنیں گے، جیسے معاملات طے ہو جائیں گے۔انھوں نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت بینچز کی تشکیل کا اختیار صرف چیف جسٹس کے پاس نہیں ہونا چاہیے بلکہ سپریم کورٹ کے تین سینئر ججز کی رائے کو بھی اس میں شامل ہونا چاہیے۔