اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف کیس کی سماعت کیلئے فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کی حکمران اتحاد کی درخواست مسترد کیے جانے کے بعد قانونی ماہرین کی آرا اس بات پر منقسم اور مختلف نظر آئیں کہ اس معاملے کو مزید غور سے جانچنے کی ضرورت ہے یا نہیں۔قانونی ماہرین نے رائے دی
کہ ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کو خطرات سے دوچار کرنے والے بحران سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر کردہ صدارتی ریفرنس میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے جس میں اس نے کہا تھا کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار نہیں کیے جائیں گے۔ایک انٹرویومیں معروف قانون دان سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ پارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے قانون سازوں کے ووٹوں کو شمار نہ کرنے کا حکم نہیں دیتی تو موجودہ بحران پیدا ہی نہ ہوتا۔فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی کی درخواستوں کا حوالہ دیتے ہوئے سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر تو سکتی ہے لیکن نظر ثانی کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ جن ججوں نے پہلے فیصلہ جاری کیا تھا وہ جج نظرثانی کی درخواستوں کی سماعت کریں گے۔جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی نے کہا کہ عدالت کو چاہیے کہ وہ زیر بحث آرٹیکل کی اپنی تشریح پر نظر ثانی کرے اور فیصلے سے پیدا ہونے والی پیچیدہ اور گنجلک صورتحال کو دور کرے۔انہوں نے عدالت کو مشورہ دیا کہ وہ نظرثانی کی درخواستوں اور پی ٹی آئی کے 20 ڈی سیٹ ایم پی ایز کی جانب سے دائر درخواستوں کو یکجا کرے اور درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور معروف قانون دان سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی اور پارٹی سربراہ کے کردار کو آرٹیکل 63اے میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔انہوں نے صدارتی ریفرنس میں عدالت عظمیٰ کے 3ـ2 کے فیصلے کو آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف قرار دیا تاہم انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر دوست محد مزاری نے فیصلے کی تشریح میں غلطی کی جبکہ
انہوں نے رن آف الیکشن کے دوران ان ووٹوں کو مسترد کیا۔قانونی ماہر اسد رحیم نے کہا کہ زیر بحت کیس فل کورٹ بینچ کے قابل نہیں۔انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ کیس میں کوئی متنازع یا کیس عدالتی نظیر کا تضاد نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی پیچیدہ آئینی سوال اور قانونی بحران ہے۔انہوں نے کہا کہ زیر بحث کیس میں صرف جس نکتے کا فیصلہ کیا جانا ہے
وہ یہ ہے کہ کیا پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کا مسلم لیگ (ق) کے ارکان کے ڈالے گئے ووٹوں کو مسترد کرنے کا حکم قانونی تھا یا نہیں۔سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ بیرسٹر عابد زبیری نے کہا کہ ہر فریق کو فل کورٹ بینچ کی تشکیل کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے لیکن بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کو حاصل ہے۔عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کے معاملے پر
جیسا کہ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران اشارہ کیا، بیرسٹر عابد زبیری نے کہا کہ بائیکاٹ کے فیصلے سے عدالت کو کسی قسم کی کوئی پریشانی محسوس نہیں ہوگی اور وہ کیس کا فیصلہ کرے گی۔انہوںنے کہا کہ عدالت میں ان چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا،
اسے صرف حقائق کا جائزہ لینا ہے اور فیصلہ کرنا ہے کہ کیا دوست مزاری کا فیصلہ 17 جون کے فیصلے کی روشنی میں تھا۔پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور قانونی ماہر حامد خان نے کہا کہ حکمران اتحاد کے ارکان نے عدلیہ کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ نامناسب اور ججوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔انہوں نے عدالت کو مشورہ دیا کہ وہ “دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے میرٹ پر کیس کا فیصلہ کرے۔