لندن (این این آئی)برطانوی خبررساں ادار ے کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 15 اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے سے چند گھنٹے قبل افغان فضائیہ کے کچھ اہلکار پیش قدمی کرنے والے جنگجوئوں کے خلاف فضائی حملے کرنے کے بجائے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔برطانوی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق افغان فضائیہ کے پائلٹ اور دیگر
دوافرادنے بتایاکہ 15 اگست کو کابل ائیرپورٹ کی حفاظت پر مامور افغان فضائیہ کے کچھ اہلکاروں نے پرواز بھرنے کیلئے تیار ایک فوجی ہیلی کاپٹر پر چڑھنے کی کوشش کی۔افغان فضائیہ کے پائلٹ نے بتایا کہ ہیلی کاپٹرکی منزل شہر سے باہرتھی لیکن اہلکاروں کو یقین تھا کہ یہ ملک سے باہر جارہا ہے اس لیے وہ یہاں سے نکلنے کے لیے پر عزم تھے۔افغان فضائیہ کے پائلٹ نے مزید بتایا کہ ان اہلکاروں کو روکنے کیلئے وہاں موجود ایک گارڈ نے اپنی بندوق کاک پٹ کی طرف بڑھائی اور فائرنگ شروع کردی جس سے پائلٹ اور جہاز میں سوار ایک ائیر مین زخمی ہو گیا جبکہ ان کاچہرہ سارا خون سے بھر گیا۔رپورٹ کے مطابق افغان صدر اشرف غنی اسی دن ملک سے فرار ہوگئے جس کے بعد امریکی حمایت یافتہ حکومت کا خاتمہ تیزی سے شروع ہوگیا اور چند گھنٹوں کے اندر، طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا اور امریکی انخلا شروع ہوگیا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ کابل پر طالبان کے قبضے سے قبل افغان فضائیہ کے ارکان کی ہنگامہ آرائی
کی اطلاع پہلے نہیں ملی تھی۔رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکا نے کابل کو طالبان سے محفوظ رکھنے کیلئے افغانستان میں ایک فورس پر اربوں ڈالرز خرچ کیے تاہم اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا لیکن امریکا کے اس منصوبے کا انکشاف تب ہواجب امریکا نے 2021 کے وسط میں افغانستان سے اپنے حتمی انخلا کیلیے حمایت لینا شروع کی۔ ٹوٹے ہوئے پک اپ ٹرکوں میں
سوار جنگجوں نے تیزی سے ملک کے غیر محفوظ ہوائی اڈوں پر قبضہ کرلیا کیونکہ ان کی حفاظت کرنے والے اکثر فوجیوں نے پہلی ہی ہار مان لی تھی جبکہ پائلٹوں نے دارالحکومت کی حفاظت کیلئے کام کرنے والے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کا رخ کابل کی طرف کرلیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ صدر اشرف غنی کی ملک سے روانگی کی خبر نے افغان فضائیہ
کے پائلٹ جو اپنے سامان اور خود کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے انہیں متحرک کیا جس کے بعد پائلٹ، ہوائی عملہ اور یہاں تک کہ ان کے کچھ رشتہ دار بھی ہوائی جہاز میں سوار ہوکر ملک سے فرار ہو گئے۔افغان فضائیہ کے ایک سابق اہلکار نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سچ پوچھیں تو آخر میں ہم نے کنٹرول کھو دیا تھا۔اس کے علاوہ ایک افغان پائلٹ نے
جولائی میں پاکستان کی سرحد کے قریب اسپن بولدک میں زخمی اور ہلاک فوجیوں کو نکالنے کیلئے ایک انخلائی آپریشن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے پاس 2ایم ڈی 530ہیلی کاپڑ یو ایچ 60 بلیک ہلی چاپر کو نکالنے کیلئے موجود تھے لیکن اسے ایک پائلٹ نے خبردار کیا کہ ہمارے پاس اسلحہ کم ہے اگر تم طالبان کی گولیوں کا نشانہ بن گئے تو تمہاری
مدد نہیں کرسکیں گے۔اس کے علاوہ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے کہا کہ طالبان کے ٹھکانوں کو درست نشانہ بنانے کے لیے استعمال ہونے والے لیزر گائیڈڈ بموں کی کمی بھی جنگ کے آخری ہفتوں میں کابل میں ایک محفوظ راز تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا خوف یہ تھا کہ اگر ہم نے اس معلومات کو عام کیا تو اس سے
طالبان کو مزید حوصلہ ملے گا اور فوجیوں کے حوصلے پست ہوں گے۔افغان ائیر فورس کے ونگ کمانڈر صافی محمد توفیق جو شمالی اور شمال مشرقی افغانستان میں آپریشنز کی نگرانی کرتے تھے انہوں نے بتایا کہ وہ جانتے تھے کہ 14 اگست کو مشکلات شروع ہو رہی ہیں جب افغان فوج کے مقامی دستوں نے ان کی فون کالز کا جواب دینا بند کر دیا ۔تاہم انہوں
نے ادھر موجود تقریبا150 فضائیہ کے اہلکاروں کو 200 میل دور کابل واپس جانے کا حکم دیا، جہاں افغان فضائیہ کو جوابی حملوں کے لیے دوبارہ منظم ہونے کی امید تھی۔صافی محمد نے مزید بتایا کہ جنگجوں نے ان کے طیارے کو نشانہ بنایا انہوں نے لینڈنگ کی کوشش کی لیکن وہ بری طرح زخمی ہو گئے تاہم انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے بچاکر ازبکستان لے جایا گیا
جہاں انہیں اسپتال میں داخل کیا گیا۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ طالبان نے جنگ کے آخری مہینوں میں افغان فضائیہ کے اہلکاروں کو قتل کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز کی ، یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی تاکہ امریکی حمایت یافتہ حکومت کے بگڑتے ہوئے فضائی فائدے کو کمزور کیا جا سکے اس لیے ٹارگٹ کلنگ میں اس سال کم از کم
7 پائلٹ مارے گئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کی مہم میں مرنے والا آخری شخص حمید اللہ حبیبی تھا، جو امریکی تربیت یافتہ بلیک ہاک ہیلی کاپٹر کا پائلٹ تھا۔ طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے سے ایک ہفتہ قبل، حبیبی کو 7 اگست کو دارالحکومت میں قتل کر دیا گیا تھا۔اس کے علاوہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 15 اگست کو کابل ائیرپورٹ پر پر جہاز کے پائلٹوں کے درمیان جھڑپ کی پیشن گوئی کچھ دن پہلے شمال مغربی افغانستان کے صوبہ ہرات میں ہوئی تھی۔