اسلام آباد (ویب ڈیسک) یہ سمندری پرندے ہزاروں کلومیٹر کا سفر بغیر بھٹکے طے کر لیتے ہیں۔ آرکٹک ٹرن نامی پرندہ موسم گرما برطانیہ میں گزارتا ہے جبکہ سردیوں میں وہ کئی ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے قطب جنوبی، انٹارکٹکا کا رخ کرتا ہے۔ لیکن سائنسدان اس مخمصے کا شکار تھے کہ یہ سمندری پرندے اتنا طویل سفر
بغیر بھٹکے کیسے طے کرتے ہیں اور ان کو ہر سال یہ راستے کیسے یاد رہتے ہیں۔ درجہ حرارت بڑھنے سے پرندوں کی قبل ازوقت ہجرت مگر اب نئی تحقیق کے مطابق یہ پرندے اپنی قوت شامہ استعمال کر کے یہ فاصلے طے کرتے ہیں۔ آکسفورڈ، بارسلونا اور پیسا یونیورسٹیوں کے محققین نے مل کر اس تحقیق میں حصہ لیا جہاں انھوں نے سمندر سے اوپر اڑنے والے پرندوں میں سونگھنے کی قوت ختم کر دی اور اس کے بعد ان کی پرواز کا جائزہ لیا۔ اس تجربے سے یہ معلوم ہوا کہ یہ پرندے خشکی پر پرواز کرتے ہوئے اپنا راستہ نہیں بھولتے لیکن جب وہ سمندر کے اوپر پرواز کرتے ہیں تو وہ بھٹک جاتے ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ جب ان کے پاس بصری مدد نہ ہو تو وہ مختلف اقسام کی مہک کی مدد سے اپنا سفر طے کرتے ہیں۔ ماضی میں کیے گئے تجربات اور تحقیق سے یہ بات پتہ چلی تھی کہ قوت شامعہ ختم کر دینے سے پرندے گھر کا راستہ بھول جاتے ہیں لیکن کچھ ماہرین نے سوال اٹھایا تھا کہ ایسا کرنے سے پرندے کھانا ڈھونڈنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہو جاتے ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے محقق اولیور پیڈگیٹ نے کہا کہ ‘ہماری نئی تحقیق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان پرندوں کو طویل فاصلے تک سمندر کے اوپر سفر کرنے کے لیے قوت شامہ کی ضرورت ہوتی ہے۔’ تجربے میں استعمال کیے جانے والے پرندے بحیرہ روم کے قریب اپنے گھونسلے بناتے ہیں لیکن افزائش نسل کے موسم کے
اختتام کے بعد وہ بحر اوقیانوس کے اوپر سفر کر کے افریقہ اور برازیل کی جانب چلے جاتے ہیں۔ ان پرندوں پر جی پی ایس آلے لگائے گئے تھے تاکے ان کی پرواز کے راستے کو جانچا جائے۔ جو پرندے زمینی علاقوں کے پاس سے گزرے ان کو تو اتنی دشواری نہیں ہوئی لیکن وہ پرندے جن کو سمندر کے اوپر سفر کرنا تھا، وہ اپنا راستہ بھٹک گئے۔ یہ تحقیق سائنٹیفیک رپورٹس نامی تحقیقی جریدے میں شائع ہوئی۔