اسلام آباد(ویب ڈیسک)ایک بڑے تحقیقی منصوبے کے مکمل ہونے پر معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر کے سمندروں کے تیزی سے تیزاب زدہ ہونے کی وجہ سے تمام سمندری حیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
جرمنی کی یونیورسٹیوں کی آٹھ سال پر محیط تحقیق کے مطابق سمندری حیات کی چند اقسام کو تو اس سے فائدہ پہنچے گا لیکن ذیادہ تر خوراک کی فراہمی کی خراب ہوتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوں گی۔ استولا سمندری حیات کے لیے محفوظ علاقہ مشتری کے چاند پر زندگی کی تلاش سائنسدانوں نے سرد پانیوں کی مچھلی کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل میں ان مچھلیوں کی چوتھائی فیصد مچھلیاں اپنی عمر پوری کر پائیں گی کیونکہ سمندر تیزابی ہو رہے ہیں۔ تحقیق دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کیمیائی تبدیلیاں تابکاری، ساحلوں پر تعمیراتی کاموں اور ماحول دشمن گیسوں کے اخراج کی وجہ سے رونما ہو رہی ہیں۔تحقیق میں 250 تحقیق دانوں نے حصہ لیا ہے جس کا نام ’بائیو ایسڈ‘ ہے۔ اس تحقیق کے تفصیلی نتائج پر مبنی ایک کتابچہ ماحولیات پر ہونے والے سالانہ مژاکرات کے دوران مذکرات کاروں کو فراہم کیا جائے گا۔ یہ مذاکرات رواں سال نومبر میں جرمنی کے شہر بون میں منعقد
ہو رہے ہیں۔ تحقیق کے ابتدائی نتائج سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’فوسل فیولز‘ یا قدرتی ایندھن سے خارج ہونے والا کاربن سمندر کے پانی میں جذب ہو جاتا ہے جو کہ ’کاربونک ایسڈ‘ بناتا ہے اور اس سے پانی کا ’پی ایچ‘ لیول یعنی ہائیڈروجن آئنز کا ارتکاز کم ہو جاتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کیا ہے؟پاکستان میں پہلی مرتبہ زندہ بلیو وہیل دیکھی گئیدنیا بھر میں صنعتی انقلاب کے بعد عالمی سمندروں کے پانی میں ’پی ایچ‘ کی سطح پہلے ہی کافی گر چکی ہے جس کی وجہ سے سمندری پانی کی تیزابیت میں 26 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔تحقیق کے مصنف پروفیسر ایلف ریبیسیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘سمندری پانی کے تیزاب زدہ ہونے سے تمام سمندری حیات متاثر ہوں گی البتہ ان کے درجے مختلف ہوں گے۔’ان کے مطابق ‘سمندری حیات کی ابتدائی زندگی کے مرحلے زیادہ متاثر ہوں گے بہ نسبت بڑی عمر کی حیات کے، لیکن اگر کوئی جاندار براہ راست پانی کے تیزاب زدہ ہونے سے متاثر نہیں ہوا تو پھر بھی
اسے اس کے ماحول کی تبدیلی یا پھر خوراک کا حصول متاثر کرئے گا’۔اس تحقیق کے دوران کچھ تحقیقی کام لیباریٹریز میں کیا گیا اور کچھ شمالی سمندر، بالٹک، آرکٹک، اور پاپوا نیو گنی کے پانیوں میں کیا گیا ہے۔