اسلام آباد(نیوز ڈیسک )سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انھیں پہلی بار کسی چار ٹانگوں والے سانپ کا رکاز یا فوسل ملا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ برازیل سے ملنے والا یہ رکاز 11 کروڑ تیس لاکھ سال قدیم ہے۔ماضی میں بھی کئی بار ٹانگوں والے سانپوں کی باقیات مل چکی ہیں لیکن کہا جا رہا ہے کہ یہ نیا دریافت شدہ ڈھانچہ ایسے سانپ کا ہے جسے دورِ جدید کے سانپوں کا براہِ راست جد قرار دیا جا سکتا ہے۔
سائنسدانوں کے مطابق اس سانپ کے نازک بازو اور پیر چلنے کے لیے استعمال نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کی مدد سے یہ شکار کو پکڑتا اور جکڑتا تھا۔اس فوسل سے اس خیال کو بھی تقویت ملی ہے کہ سانپوں کا ارتقا پانی میں نہیں بلکہ خشکی پر ہوا تھا۔محققین کی ٹیم کے یونیورسٹی آف باتھ سے تعلق رکھنے والے رکن ڈاکٹر نک لونگرچ نے کہا ہے کہ ’یہ سانپ کا سب سے قدیم فوسل ہے اور واضح طور پر اس کا تعلق پانی سے نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے اس ساڑھے 19 سنٹی میٹر طویل رکاز کی تصاویر دیکھیں تو حیران رہ گئے کیونکہ انھیں امید تھی کہ اس کی ساخت خشکی والے جانداروں کی جیسی ہوگی۔
اس کی بجائے انھوں نے اس میں ’جدید دور کے سانپوں جیسی خصوصیات، جن میں اس کے خم دار دانت، لچک دار ریڑھ کی ہڈی اور جبڑا شامل ہیں۔‘سائنسدانوں کے مطابق اس سانپ کے نازک بازو اور پیر چلنے کے لیے استعمال نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کی مدد سے یہ شکار کو پکڑتا اور جکڑتا تھاان کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح طور پر ایک سانپ ہے بس اس کے چھوٹے ہاتھ اور چھوٹی ٹانگیں ہیں۔‘
اس کے ہاتھ چار ملی میٹر اور ٹانگیں سات ملی میٹر کی ہیں لیکن ڈاکٹر لونگرچ ان ہاتھوں اور ٹانگوں کو بلاوجہ لٹکتے ہوئے دیکھ کر حیران رہ گئے۔لونگرچ کا کہنا ہے کہ ’ہمارے خیال میں ان جانوروں نے ہاتھوں پیروں کو چلنے پھرنے کے لیے استعمال کرنا چھوڑ دیا تھا اور وہ انھیں شکار کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔‘ڈاکٹر لونگرچ کے خیال میں یہ سانپ اپنے جسم کے اگلے یا پچھلے حصے سے شکار کو جکڑ لیتے تھے، اس لیے یہ زور سے جکڑنے والے سانپ ہیں۔تاریخ میں جکڑنے والے سانپوں کا پتا لگانے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی گئی ہے جس نے پرانے زمانے کے سانپوں اور دوسرے رینگنے والے جانوروں کی جنیاتی اور جسمانی معلومات کی مدد سے ایک شجرہ نسب تیار کیا ہے۔یہ تجزیہ ٹی ایملیکٹس پر آکر رکا ہے جو کے جدید دور کے سانپوں کو بڑھانے والی سب سے پہلی شاخ ہے یہ تجزیہ ٹی ایملیکٹس پر آکر رکا ہے جو کہ جدید دور کے سانپوں کو بڑھانے والی سب سے پہلی شاخ ہے۔لندن کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں سانپوں کی ارتقا کے بارے میں پڑھنے والے ڈاکٹر برونو سیموز کا کہنا ہے کہ’اس سانپ کے معدے کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی آخری خوارک کوئی چھوٹا اور بدقسمت ریڑھ کی ہڈی والا جانور تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بہت حیران کن ہے خاص طور پر یہ کراو¿ن گروپ کے بہت قریب ہیں۔ جو بنیادی طور پر موجودہ سانپ ہیں۔ اس سے ہمیں اندازہ ہو رہا ہے کہ پرانے زمانے میں سانپ کیسے تھے۔‘ان کے مطابق: ’تمام تازہ دریافتوں سے یے معلوم ہوتا ہے کہ پرانے زمانے کے تمام سانپوں کی نسلیں خشکی پر رہتی تھیں اور زیادہ تر آدھے زمین کے اندر رہتے تھے۔‘