پونچھ (نمائندہ خصوصی) آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ کے علاقے باغ میں پولیس کی جانب سے ایک مشتبہ دہشتگرد زرنوش نسیم کی گرفتاری کے لیے کی گئی کارروائی کے دوران شدید فائرنگ اور مبینہ خودکش دھماکے کے نتیجے میں زرنوش اور اس کے تین ساتھی مارے گئے، جب کہ پولیس کے دو اہلکار جامِ شہادت نوش کر گئے۔
ابتدائی اطلاعات کے مطابق، پولیس کو زرنوش نسیم کی موجودگی کی اطلاع ملی جس پر فوری کارروائی کی گئی۔ چھاپے کے دوران اچانک فائرنگ شروع ہو گئی اور اسی دوران ایک زوردار دھماکہ ہوا، جس کے متعلق شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ خودکش حملہ تھا۔ اس واقعے میں چار افراد، جن میں زرنوش بھی شامل تھا، موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں میں گل فراز (ضلع بھمبر) اور ایک دیگر اہلکار شامل ہیں، جب کہ چھ پولیس اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں جن میں رحمان، حفیظ، نعمان، ذیشان، اصغر علی، اور نعیم شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ زخمیوں کی حالت نازک ہے۔
زرنوش نسیم، جو باغ کے علاقے کا رہائشی تھا، حالیہ برسوں میں ایک متنازعہ اور زیرِ نگرانی شخصیت کے طور پر سامنے آیا۔ وہ پہلی بار 2023 میں اس وقت خبروں کی زینت بنا جب وہ مبینہ طور پر پرسرار حالات میں لاپتہ ہوا۔ اس کی گمشدگی پر مقامی سطح پر مظاہرے بھی ہوئے اور شہریوں نے اسے بغیر کسی عدالتی کارروائی کے غائب کرنے کا الزام عائد کیا۔ اس وقت سینیٹر مشتاق احمد نے بھی اس معاملے میں آواز بلند کی تھی۔
بعدازاں زرنوش دوبارہ منظر عام پر آیا، لیکن اس کی واپسی کے حالات واضح نہیں ہو سکے۔ کچھ عرصے بعد اس پر شجاع آباد میں پولیس چوکی پر مسلح حملے کا الزام بھی لگا، جس میں کانسٹیبل سجاد ریشم شہید ہو گیا تھا۔
مارچ 2025 میں، پولیس نے آزاد پتن کے علاقے سے ثاقب غنی نامی ایک شخص کو گرفتار کیا، جس نے دورانِ تفتیش اعتراف کیا کہ سجاد ریشم کے قتل میں زرنوش اور اس کے ساتھی ملوث تھے، اور وہ مزید کارروائیوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ اس بیان کی تصدیق ایک اور نوجوان نے کی، جو ازخود پولیس کے سامنے پیش ہوا اور ویڈیو پیغام میں انہی الزامات کو دہرایا۔
دھمنی کے علاقے سے ایک اور ملزم کو گرفتار کیا گیا، جس نے ویڈیو بیان میں انکشاف کیا کہ وہ زرنوش اور اس کے گروہ کو اسلحہ اور دیگر سامان پہنچاتا رہا ہے۔
ان مسلسل انکشافات کے بعد سکیورٹی اداروں نے زرنوش کی تلاش تیز کر دی، جس کا نتیجہ حالیہ چھاپہ اور جھڑپ کی صورت میں نکلا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ زرنوش نسیم کا تعلق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (TTP) سے تھا، جب کہ سوشل میڈیا پر سرگرم ایک اور شخصیت، ڈاکٹر عبدالرؤف، جو باغ سے تعلق رکھتے ہیں اور اب مبینہ طور پر افغانستان میں مقیم ہیں، زرنوش کے حق میں بیانات دے رہے ہیں اور ریاستی مؤقف پر تنقید کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
یہ واقعہ آزاد کشمیر میں سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالے سے ایک سنجیدہ سوالیہ نشان بن کر ابھرا ہے، اور اس پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مزید تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔