اسلام آباد(آن لائن)ڈائریکٹر جنرل آئل ڈاکٹر شفیع الرحمن نے کہا ہے کہ پٹرول کا مصنوعی بحران پیدا کرنے والی گو،شیل اور ہیسکول کمپنیاں ہیں،ان تین پرائیویٹ کمپنیوں کے پاس 14کروڑ لیٹر پٹرول موجود تھا،لیکن حکومت کو غلط اعداد وشمار بتاتی رہیں،24دن کے سٹاک کو پانچ دن کاسٹاک ظاہر کیا گیا جب ایف آئی اے کی طرف سے ریڈ کیا گیا تو شیل کمپنی نے سپلائی دینا شروع کردی۔گو کے پاس54ہزار میٹرک ٹن
جبکہ ہیسکول کے پاس43ہزار میٹرک ٹن پٹرول کا ذخیرہ موجود تھا۔پی ایس او نے ریاستی کمپنی ہونے کی وجہ سے پٹرول کی سپلائی بحال رکھی اور مارکیٹ میں اپنا شیئر 32فیصد سے بڑھا کر55فیصد کرلیا۔گو،شیل اورہیسکول کو ایف آئی اے کی طرف سے نوٹسز جاری کئے گئے تو انہوں نے مختلف عدالتوں میں رٹ دائر کرنا شروع کردی۔ان خیالات کا اظہار انہوں نیآن لائن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ڈاکٹر شفیع الرحمن نے کہا کہ 28مئی سے پٹرول کا بحران شروع ہوا اور اس بحران کو تین کمپنیاں شیل،گو اور ہیسکول نے لیڈ کیا اور پورے ملک میں پٹرول کابحران پیدا کیا۔ان کے پاس کراچی میں 34دنوں کا سٹاک موجود تھا لیکن انہوں نے 24گھنٹے کے اندر ایف آئی کے ریڈ کے بعد پانچ دن کا سٹاک ظاہر کرنا شروع کردیا۔اس بحران کے حوالے سے کمیٹی بنائی گئی تو جب کمیٹی نے ریڈ کیا تو شیل نے مارکیٹ میں سپلائی دینا شروع کردی جبکہ گو اور ہیسکول نے اپنا سٹاک موجود رکھا۔گو کے پاس54ہزار میٹرک ٹن جبکہ ہیسکو کے پاس43ہزار میٹرک ٹن پٹرول موجود تھا،جو کہ 14کروڑ لیٹر بنتا ہے جو صرف ان دو کمپنیوں کے پاس پڑا ہوا تھا۔ان کمپنیوں نے غلط اعداد وشمار بتائے،لیکن جب ایف آئی اے کی کمیٹی نے ریڈ کیا تو ان کے پاس وافر سٹاک موجود تھا،جس پر ایف آئی اے کی طرف سے ان کو نوٹسز جاری کئے گئے لیکن یہ ایف آئی اے کے سامنے پیش نہیں ہوئے اور لاہور،کراچی اور دوسرے شہروں
کی عدالتوں میں رٹ کرنے لگے۔ان کمپنیوں نے پٹرول کا سٹاک صرف اپنا منافع بڑھانے کیلئے کیا تاکہ جب پٹرول کا ریٹ بڑھے گا تو اپنی مرضی سے فروخت کریں گے۔انہوں نے کہا کہ اب ملک کے شہری علاقوں میں پٹرول کی سپلائی بحال ہوگئی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں ابھی تک پٹرول کی سپلائی بحال نہیں ہوسکی،جس کیلئے ہم کوشش کر رہے ہیں اور وہ جلد بحال ہوجائے گی۔پنجاب کے علاقوں سرگودھا،فیصل آباد،اندرون سندھ اور خیبرپختونخواہ
کے سوات،مالاکنڈ اور دیر کے علاقوں میں پٹرول کی سپلائی بحال نہیں ہوسکی۔انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کمپنیوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروائی ہیں اور سٹاک ہونے کے باوجود یہ کمپنیاں مارکیٹ میں پٹرول فراہم نہیں کررہی تھیں۔آئل کمپنیوں کے پاس 20دن کا سٹاک ہونا چاہئے۔گو کمپنی کا مارکیٹ میں شیئر 40سے کم ہوکر10فیصد جبکہ ہیسکو کا10سے کم ہوکر 6فیصد اور شیل کا 10سے کم ہوکر6 فیصد رہ گیا جبکہ پی ایس او کا
32فیصد سے بڑھ کر55فیصد ہوگیا۔پی ایس او چونکہ ریاستی کمپنی ہے،جس نے اس بحران میں قابو پالیا،اگریہ کمپنی نہ ہوتی تو ہمیں ان پرائیویٹ کمپنیوں نے پریشان کرنا تھا۔چائنہ کی سٹیٹ سیکٹر آئل کمپنیاں ہیں،جس کی وجہ سے وہاں ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوتی،اگر ہم بھی اپنی ایسی ریاستی کمپنیاں بنا لیں تو پرائیویٹ کمپنیاں اپنی من مانیاں نہیں کرسکیں گی۔انہوں نے کہا کہ پٹرول اور ہائی آکٹین میں 10سے15روپے کا فرق ہونا چاہئے لیکن یہ پرائیویٹ کمپنیاں 80روپے فرق سے فروخت کر رہی ہیں۔
یکم مارچ کو پانچ روپے اور25مارچ کو 15روپے لیٹر پٹرول سستا ہوا۔اس طرح اپریل میں بھی ایک مرتبہ5اور پھر15روپے اور مئی میں 15روپے پٹرول سستا ہوا۔انٹرنیشنل مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت کم ہوئی توان پرائیویٹ کمپنیوں کو کوئی نقصان نہیں تھا لیکن اس کے باوجود انہوں نے پٹرول کو سٹاک کیا تاکہ جب ریٹ بڑھے تو اس کو فروخت کریں گے۔ہم نے ان تمام کمپنیوں کی امپورٹ بھی بڑھا دی،جب ان کو پٹرول امپورٹ کی اجازت ملتی ہے تو یہ 10سے12دن میں پٹرول منگوا لیتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں تمام ریفائنریز کی طرف سے بھی یہ لکھا ہوا آرہا تھا کہ یہ 22ہزار سے کم ہوکر 7000بیرل پر آگئی ہے۔نیشا1700ہزار سے کم ہوکر6000پر آگئی ہے،اگر کنویں ایک مرتبہ بند ہوگئے تو دوبارہ چلنا مشکل ہو گا اور اس سے اربوں روپے کا نقصان ہوگا۔ملک میں پانچ ریفائنریز ہیں جن سے دو لاکھ میٹرک ٹن ماہانہ پٹرول کی پیداوار ہوتی ہے