اسلام آباد (نیوز ڈیسک) حکومت کی طرف سے ریونیو شارٹ فال اور بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے کسی نئے ٹیکس کے نفاذ کی بجائے موبائل فون کارڈ پر ٹیکسز کی بحالی کے لیے ایک متبادل فارمولہ سپریم کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔ ایک موقر قومی اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر کاکہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کے حصول کے لیے پیشگی شرائط کے طور پر ریونیو ہدف حاصل کرنے کے لیے رواں مالی سال میں کوئی نیا ٹیکس نافذ نہیں کیا جائے گا،
انہوں نے کہا کہ ٹیلی کام سروسز پر ٹیکسز میں نظرثانی کرنے کے لیے ایک نیا فارمولا پیش کرنے کے علاوہ آمدنی میں اضافے کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے جائیں گے کیونکہ عدالت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کا پہلے والا فارمولا مسترد کر دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت دوطرفہ بنیادوں پر ضروری فنڈز کا انتظام کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ وزیر مملکت نے آمدنی کی قلت کو بنیادی طور پر موبائل کارڈ پر ٹیکسز کی معطلی، پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی سے جوڑتے ہوئے کہا کہ آسان ریونیو کے لیے حکومت سیلز ٹیکس میں اضافے کو ترک کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے دیامر بھاشا اور مہمنڈ ڈیم کی تعمیر سے متعلق فیڈرل بورڈ آف ریونیو ایف بی آر کے چیئرمین کو کہا ہے کہ وہ تجویز دیں کہ کیا موبائل فون بیلنس پر ڈیم کے لیے خصوصی ٹیکس لگایا جاسکتا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے موبائل فون کارڈز پر ودہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جبکہ لوگ کہتے ہیں کہ ختم نہ کریں ڈیم کو دے دیں، سالانہ 36 ارب روپے بنتے ہیں، اس کے علاوہ 10 ارب روپے پانی کمپنیوں پر لگائے گئے ٹیکس سے آجائیں گے۔انہوں نے کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک بیرون ملک سے آنے والی رقم پر کٹوتی کے بارے میں آگاہ کریں جس پر گورنر اسٹیٹ بینک نے جواب دیا کہ جن ممالک سے رقم آرہی ہے وہ خود کاٹ رہے ہیں، ہم کٹوتی نہیں کر رہے۔بعد ازاں عدالت نے چیئرمین واپڈا کو ڈیموں کی تعمیر
سے متعلق تحریری منصوبہ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔عدالت نے ہدایت کی کہ گورنر اسٹیٹ بینک بتائیں کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے عطیات بھجوانے کے عمل کو کیسے آسان بنایا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر بتائیں کہ کیا موبائل فون پر ڈیم کے لیے خصوصی ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے جون 2018 میں موبائل کمپنیوں کی جانب سے پری پیڈ کارڈ کے ری چارچ پر لیے جانے والے ٹیکسز کو معطل کردیا تھا جبکہ صرف اسی سے سالانہ 80 ارب روپے کی آمدنی حاصل ہورہی تھی۔