ایک بچہ بہت شرارتی تھا‘ وہ گھر میں ہر وقت توڑ پھوڑ کرتا رہتا تھا‘ والدین اسے نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس لے گئے‘ ڈاکٹر نے بچے کو بڑے سائز کی نکر پہنا دی‘ بچہ اس کے بعد سارا دن اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنی نکر سنبھال کر کھڑا رہتا تھا‘ اس کے دونوں ہاتھ مصروف رہتے تھے چنانچہ اس نے شرارتیں بند کر دیں‘ ہماری حکومتوں کے ساتھ بھی عموماً یہی ہوتا ہے‘
یہ اقتدار میں آنے کے بعد میمو اور پانامہ جیسی نکریں پہن لیتی ہیں‘ان کے دونوں ہاتھ نکر سنبھالنے میں مصروف ہو جاتے ہیں اور یوں یہ وہ کام کرنے کی بجائے جس کیلئے عوام انہیں منتخب کرتے ہیں یہ نکر بچاتے بچاتے اپنا وقت پورا کر دیتی ہیں‘ موجودہ حکومت بھی اسی مسئلے کاشکار ہے‘ دہشت گردی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ تھا‘ عوام کو حکومت سے توقع تھی یہ لوگ سارے کام چھوڑ کر ملک سے دہشت گردی ختم کریں گے لیکن یہ پانامہ میں الجھ گئی اور یوں نیشنل ایکشن پلان ہو‘ ضرب عضب ہو یا پھر ردالفساد ہو ملک کا اصل مسئلہ پچھلے باورچی خان میں چلا گیا‘ آج لاہور شہر میں پولیس کو ٹارگٹ کر کے خود کش حملہ کیا گیا‘ اب تک نو پولیس اہلکار اور سترہ عام شہری شہید ہو چکے ہیں‘ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ بھی موجود ہے‘ یہ اس ماہ میں پولیس اور ایف سی پر چوتھا حملہ ہے‘ دہشت گردوں نے 13 جولائی کو کوئٹہ میں حملہ کر کے ایس پی قائد آباد مبارک شاہ سمیت چار پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا‘ 17 جولائی کو راولپنڈی ائیر پورٹ کے علاقے میں ایک پولیس کانسٹیبل کو نشانہ بنایا گیا‘ 17 جولائی کوپشاور حیات آباد میں ایف سی کی گاڑی پر حملہ کر کے ایک میجر اور (ان) کے گن مین کو قتل کر دیا گیا‘ 15 جون کو پشاور میں تین اہلکاروں کو شہید کر دیا گیا یوں محسوس ہوتا ہے دہشت گرد پولیس کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کر رہے ہیں‘ کیوں؟
اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ پولیس سافٹ ٹارگٹ ہوتی ہے‘ یہ لوگ سڑکوں پر کھڑے ہوتے ہیںانہیں آسانی سے ٹارگٹ بنایا جاسکتا ہے اور دوسری وجہ پولیس ریاست کی علامت ہوتی ہے‘دہشت گرد ہماری علامت کونشانہ بنا کر ہماری ریاست کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت کہاں ہے‘ کیا حکومت کی نظر میں پانامہ کے علاوہ بھی کوئی ایشو‘ ایشو ہے اور کیا دہشت گردی جیسے عفریتوں سے نبٹنے کیلئے کوئی اور حکومت بنانی چاہیے‘ ایک حکومت پانامہ پانامہ کھیلے اور دوسری حکومت دہشت گردی جیسے مسائل کا مقابلہ کرے اور پانامہ لیکس کی کھلی نکر ملک کا پیچھا کب چھوڑے گی؟