جمعہ‬‮ ، 27 دسمبر‬‮ 2024 

عید کے بعد اُبھرتا سیاسی منظر

datetime 21  جولائی  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(نیوزڈیسک) اگر جوڈیشیل کمیشن مئی 2013ء کے عام انتخابات میں منظم دھاندلی کے تحریک انصاف کے دعوے کو مسترد بھی کر دیتاہے تب بھی اُڑتی ہوئی سیاسی دُھول بیٹھتی دکھائی نہیں دیتی۔ عمران خان پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات سے قبل ایک اور سونامی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں لیکن حکومت کے خلاف کسی بڑے سیاسی طوفان کے امکانات معدوم ہوتے جا رہے ہیں جب تک کہ طاقتور جوڈیشیل کمیشن تازہ انتخابات کی سفارش نہیں کر دیتا۔ حکومت نے بھی اس حوالے سے جوابی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔ اسے یقین ہے کہ جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ اپوزیشن کے لئے بڑا دھچکا ثابت ہوگی۔ اگر منظم دھاندلی نہ تھی تب بھی عمران خان پرامید ہیں کہ جوڈیشیل کمیشن یہ قرار دے دیگا کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ نہیں ہوئے۔ ان کے لئے وزیراعظم نواز شریف پر دبائو ڈالنے کی مہم چلانے کی غرض سے اتنا ہی کافی ہوگا۔ تاہم تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) میں حوالے کی شرائط کے مطابق انتخابات کے خلاف واضح نتائج سامنے آ جاتےہیں، اس کے باوجود حکومت کے مستعفی ہونے کا امکان نہیں ہے اور ہو سکتا ہے تازہ انتخابات کے معاملے میں اپوزیشن بھی منقسم ہو۔ لہٰذا ملک میں آئندہ کا سیاسی منظرنامہ جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ کے گرد گھومتا ہے کیونکہ یہی آئندہ بلدیاتی انتخابات اور مستقبل کی حکومت کے لئے اس کے لئے ماحول بنائے گا۔ سینئرتحقیقاتی صحافی مظہرعباس کے مطابق اپوزیشن کے اب بھی تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کے کیمپوں میں بٹ جانے اور ایم کیو ایم کو درپیش تنہائی کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کے لئے صورتحال کوئی زیادہ پریشان کن نہیں ہے۔ لیکن اس کا تمام تر انحصار جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ پر ہوگا۔ رواں سال ستمبر اور اکتوبر سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے قبل چند عدالتی فیصلے مسلم لیگ (ن) کے لئے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے لئے آئندہ چند ہفتے نہایت اہم ہیں۔ دونوں کے لئے آگے کیا چیلنجز ہو سکتے ہیں؟ (1) 2013ء کے عام انتخابات پر جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ، (2) 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ، (3) بھاری کرپشن مقدمات کی سپریم کورٹ میں سماعت جن میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے نام سامنے آئے، (4) کراچی کی اُبھرتی صورتحال اور ایم کیو ایم کی ممکنہ مہم اور (5) پنجاب میں مبینہ دہشت گرد گروپوں کے محفوظ ٹھکانوں اور ان کے نیٹ ورک کے خلاف آپریشن، جو بات نوازشریف حکومت کے حق میں جاتی ہے وہ ان کی حکومت کے لئے مثبت اقتصادی اشاریئے ہیں۔ دوسرے اپوزیشن کی صفوں میں مکمل تقسیم اور تیسرے سیاسی اور فوجی قیادتوں کے درمیان کوئی بڑا وجہ تنازع نہیں ہے۔ تاہم سندھ کی حکومت کے لئے وجہ تشویش موجود ہے۔ خصوصاً ایسی اطلاعات کے بعد کہ ایم کیو ایم ’’کراچی ٹارگٹیڈ ایکشن‘‘ کو جسے اب وہ ’’ایم کیو ایم ٹارگٹیڈ ایکشن‘‘ قرار دیتی ہے، اس کے خلاف سیاسی مہم چلانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اقتصادی حب کراچی میں سیاسی گڑبڑ وزیراعظم کے لئے باعث تشویش ہو سکتی ہے۔ ایم کیو ایم نے الطاف حسین کی جانب سے تادم مرگ بھوک ہڑتال فیصلے کے بعد اپنے ابتدائی منصوبے کا اعلان کر دیا ہے۔ تاہم اپوزیشن پھربھی منقسم رہے گی کیونکہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کسی اتحاد کا امکان ہے اور نہ ہی پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف باہم ملنے کے لئے تیار ہیں۔ عمران خان کی جوڈیشیل کمیشن رپورٹ سے وابستہ اُمیدوں کے باوجود اپوزیشن کی تقسیم حکومت کے حق میں جاتی ہے۔ عمران خان اگر اپنا ’’سونامی‘‘ سڑکوں پر لانا چاہتے ہیں تب بھی وہ تنہا پرواز کے ہی خواہاں ہیں۔ جماعت اسلامی اپنا فیصلہ جوڈیشیل کمیشن رپورٹ کی روشنی میں کرے گی۔ 126 روزہ دھرنے کے بعد عمران خان کی سونامی کا نتیجہ جوڈیشیل کمیشن کی تشکیل کی صورت میں نکلا۔ گو کہ تحریک ان کے کارکنوں کے عزم و حوصلے کو ظاہر کرتی ہے لیکن اس دوران اُونچی توقعات کے بارے میں سوالات بھی اُٹھے اور کس طرح سے ’’امپائر کی اُنگلی‘‘ نے نہیں مایوس کیا۔ اس طرح دھرنے کے دوران سونامی اسلام آباد ہی نہیں بلکہ تحریک انصاف سے بھی جا ٹکرایا۔ اس کے بعد تو تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات بھی اُبھر کر سامنے آئے۔ تحریک انصاف کے بعض رہنماء پارٹی امور چلائے جانے کے طریقوں سے مطمئن نہیں۔ انہیں پیپلزپارٹی چھوڑ کر آنے والوں کو قبول کئے جانے پر اعتراضات ہیں۔ وہ پارٹی کے آئندہ انتخابات اور پارٹی کے گزشتہ انتخابات پر جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد ٹریبونل رپورٹ پر بھی مطمئن نہیں ہیں۔ تحریک انصاف معمر و تجربہ کار قانون دان عبدالحفیظ پیرزادہ کی خدمات حاصل کرنے کے باوجود جوڈیشیل کمیشن میں اپنا کیس بظاہر نہیں لڑ سکی۔ جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ جو ایک یا دو ہفتوں میں سامنے آ جائے گی، وہ نئی سیاسی سمت کے لئے ماحول طے کر دے گی۔ مئی 2013ء کے بعد عمران خان کی سیاست مسلم لیگ (ن) کی جانب سے منظم انتخابی دھاندلیوں کے الزامات، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، سابق نگراں وزیراعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی اور الیکشن کمیشن کے گرد گھومتی رہی۔ جو لوگ جوڈیشیل کمیشن کی سماعتوں میں حاضر رہے، انہیں منظم دھاندلی کی ٹھوس شہادتیں پیش نہ کئے جانے اور اہم کرداروں کو کٹہرے میں نہ لائے جانے پر مایوسی ہوئی۔ تاہم عمران خان الیکشن کمشنرز اور ریٹرننگ افسران کی انتخابی عمل کو سنبھالنے میں ناکامی اور نتائج کو تحفظ دینے کو سامنے لانے میں کامیاب رہے، دوسرے اس بات کے ثبوت پیش کئے گئے کہ کس طرح سے انتخابی ریکارڈ کو سنبھال کر نہیں رکھاجا سکا اور انتخابی افسران کس قدر غیرتربیت یافتہ تھے۔ تیسرے جوڈیشیل کمیشن کے سامنے پہلی بار فارم۔ 14 اور فارم ۔ 15 کی اہمیت اُجاگر ہو کر سامنے آئی۔ اگر جوڈیشیل کمیشن منظم دھاندلی کے بارے میں تحریک انصاف کی استدعا مسترد کر دیتا ہے لیکن یہ قرار دے دیتا ہے کہ انتخابی نتائج سنبھال کر نہیں رکھے گئے اور مذکورہ دو فارم کی عدم موجودگی پر سوال اُٹھائے جاتے ہیں تو بھی عمران خان کے لئے رپورٹ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کیلئے کافی ہوگا۔ چاہے جوڈیشیل کمیشن مسلم لیگ (ن) کو بری کر دے یا تازہ انتخابات کی سفارش کرے۔ مسلم لیگ (ن) کے لئے اگر رپورٹ منظم دھاندلی میں اس کے ملوث ہونے کو مسترد کر دیتی ہے تو یہ تمام تر پنجاب میں بلدیاتی انتخابات سے قبل زیادہ سے زیادہ سیاسی فائدہ اُٹھانے کے حوالے سے عمران خان کے خلاف جائے گا، لہٰذا یہ بات تمام تر ممکنات میں ہے کہ رپورٹ سامنے آ جانے کے بعد بھی سیاسی دُھول نہیں چھٹے گی اور عمران خان ایک بار پھر سے ایشو کو سڑکوں پر لے آئیں گے۔ اس بار ان کی حکمت عملی دھرنے سے مختلف ہوگی۔ اب کیا عمران خان یا تحریک انصاف اپنے ہی بل بوتے پر تحریک شروع کریں گے یا جماعت اسلامی اور ممکنہ حد تک ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک کی حمایت کے بھی طلب گار ہوں گے؟ اکتوبر میں بلدیاتی انتخابات کے پیش نظر پنجاب عمران خان کا دوبارہ گڑھ ہوگا جبکہ اندرون سندھ اور کراچی میں تحریک انصاف کچھ زیادہ منظم نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی اے این پی کے کردار کو بھی دیکھنا دلچسپی کا باعث ہوگا۔ اگر یہ دونوں جماعتیں کسی طور تحریک انصاف کے ساتھ مل جاتی ہیں تو مسلم لیگ (ن)، ایم کیو ایم اور جے یو آئی (ف) کی جانب مدد کے لئے دیکھ سکتی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اب بھی عمران خان پر نوازشریف کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن ساتھ میں انہیں پیپلزپارٹی پنجاب کی جانب سے بھی دبائو کا سامنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو چیلنج کئے بغیر پیپلزپارٹی ایک اپوزیشن جماعت نہیں ہوگی۔ وزیراعظم نوازشریف کو ایم کیو ایم سے سنگین مسائل ہو سکتے ہیں لیکن وہ یہ بھی یقیناً نہیں چاہیں گے کہ ستمبر کے بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کراچی میں جڑیں پکڑے۔ انہیں بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور کچھ دیگر قوم پرست جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مشکل ہی نہیں بلکہ دُرست بھی نہ ہوگا کہ ممکنہ جوڈیشیل کمیشن رپورٹ کے بارے میں کوئی پیشنگوئی کی جائے، لیکن وہ بڑی مضبوط سفارشات کے ساتھ سامنے آ سکتی ہے اور 2013ء کے عام انتخابات کرائے جانے کے انداز پر چند سوالات بھی اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ کمیشن ریٹرننگ و پرایذائیڈنگ افسران اور اس سے زیادہ اہم وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ملازمین پر مشتمل انتخابی عملے کے کسی بھی نادیدہ اثر و رسوخ سے آزاد ہونے کے لئے تجاویز دے سکتا ہے۔ الیکشن کمیشن خود اپنا عملہ بھرتی کر کے سال بھر انہیں تربیت کیوں نہیں دے سکتا؟ انہیں کسی بھی حکومتی اثر و رسوخ سے آزاد ہونا چاہئے۔ جوڈیشیل کمیشن رپورٹ کا چاہے جو بھی نتیجہ سامنے آئے ایک بات یقینی ہے اور وہ یہ کہ آئندہ عام انتخابات کے لئے یہ رپورٹ کچھ مثبت ہی سامنے لائے گی اور عمران خان کے لئے اس رپورٹ کے حوالے سے اپنے دعوے کے لئے بہت کچھ ہوگا، لیکن ساتھ میں تحریک انصاف اور عمران خان کو بھی اس سے قطع نظر بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند ماہ سے عمران خان کی جو شخصیت اُبھر کر سامنے آئی ہے وہ نہ صرف غیرذمہ دارانہ گفتگو کرنے والے بلکہ کچے کانوں والے کی بھی ہے۔ دھرنے اور اس کے بعد ان کے بیانات کو یکجا کیا جائے یہ تضادات کا مجموعہ نظر آتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ منظم دھاندلی کو ثابت کرنے کے لئے ثبوت فراہم نہیں کر سکے۔ لہٰذا ایک اور دھرنے یا تحریک کی خاطر عمران خان کے لئے یہ نہایت اہم ہے کہ وہ پہلے اپنے گھر کو ترتیب میں رکھیں اور دوسرے کسی ’’امپائر‘‘ کے بجائے خود پر بھروسہ رکھیں۔ حکومت کے لئے بھی اب یہ وقت ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرے اور اچھی طرزحکمرانی قائم کرے۔ اگر جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ اس کے حق میں نہیں آتی تب وزیراعظم بلاجھجھک تازہ انتخابات کا اعلان کر دیں۔ نوازشریف نئے جمہوری آرڈر کے لئے اخلاقی بنیادیں فراہم کر سکتے ہیں



کالم



کرسمس


رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…