پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں سے سابق سپیکر ایاز صادق کس طرح نمٹے تھے؟اسد قیصر کو وہی طریقہ اختیار کرنے کا مشورہ دیدیا گیا

27  دسمبر‬‮  2020

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں سے سابق اسپیکر ایاز صادق کس طرح نمٹے تھے؟ موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی بھی متوقع استعفوں پر وہی طریقہ کار اختیار کرسکتے ہیں۔روزنامہ جنگ میں طارق بٹ کی شائع خبر کے مطابق قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق

کے پاس جب پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی نے استعفے جمع کیے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ان استعفوں کو اعلی عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں آئین اور قانون کے مطابق دیکھا جائے گا۔ 6 اپریل، 2015 کو دیئے گئے اپنے حکم میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلسل 40 روز تک رکن کی غیرحاضری کی وجہ سے خالی رہنے والی سیٹ پر آئین کے آرٹیکل 64 (2) کے تحت یہ بات اسمبلی کے نوٹس میں لائی جاتی ہے۔ تاہم، یہ تحریک قانون ساز بھجواتے ہیں اور اس کے بعد ایوان اس کو قبول یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، یہ کام سپیکر نہیں کرتا۔ تاہم، اب تک کوئی تحریک سامنے نہیں آئی ہے۔ ایاز صادق نے 3 ستمبر، 2014 کو تحریر کیا تھا کہ پی ٹی آئی وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے دیگر ارکان کے ساتھ مشترکہ بیٹھک میں سیشنز میں شرکت کی تھی۔ انہیں اسپیکر چیمبرمیں آکر استعفوں سے متعلق بات چیت کا کہا گیا تھا مگر وہ تقریر کرکے پی آئی آئی قانون سازوں کے ہمراہ ایوان سے چلے گئے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے

استعفوں کی توثیق کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایاز صادق نے کہا تھا کہ استعفیٰ ان کے آفس میں جمع کروائے گئے تھے اور وہ ذاتی حیثیت میں سپیکر کو نہیں دیئے گئے تھے اس لیے آئین اور قانون کے مطابق، انہیں نوٹسز جاری کیے گئے تاکہ وہ اسپیکر چیمبر میں آکر اس کی توثیق کریں۔

اس سے قبل 2 ستمبر، 2014 کو جاوید ہاشمی جو کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے تھے، ایوان میں شریک ہوئے اور تقریر کی اور اس کے آخر میں اسپیکر سے استعفیٰ قبول کرنے کی درخواست کی ، جسے تسلیم کرکے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ ایاز صادق نے 1976 میں سپریم کورٹ

کی جانب سے آرٹیکل 64 کی تشریح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کہا گیا تھا کہ اس شق کے تحت اسپیکر کا یہ فرض اور حق ہے کہ وہ استعفوں کی حقانیت کی توثیق کرے۔ جب کہ اگر اسپیکر ضروری سمجھے تو اس کی انکوائری بھی کرواسکتا ہے۔ تاہم، انکوائری کا انحصار کیس کی

نوعیت سے مختلف ہوسکتا ہے۔ فیصلے میں رول 43 کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی رکن تحریری طور پر اپنا استعفیٰ اسپیکر کو بھیج سکتا ہے۔ اگر وہ ذاتی حیثیت میں اسپیکر کو یہ استعفیٰ دے اور اسپیکر کو بتادے کہ وہ رضاکارانہ طور پر مستعفی ہورہا ہے۔

جب کہ دوسری صورت میں اگر اسپیکر کو اس متعلق کوئی علم نا ہو یا اسپیکر کو استعفیٰ کسی اور ذریعے سے ملا ہو تو وہ انکوائری کے بعد چاہے وہ ذاتی حیثیت میں کی جائے یا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذریعے یا کسی اور ایجنسی کے ذریعے کی جائے جس کے بعد اگر وہ مطمئن ہو کہ استعفیٰ حقیقی ہے تو وہ اسمبلی کو اس بارے میں آگاہ کرے گا۔ اگر کسی رکن نے اس وقت استعفیٰ دیا ہے کہ جب اسمبلی سیشن نا ہورہا ہو تو اسپیکر فوری طور پر اس سے متعلق تاریخ کے ساتھ ہر رکن کو آگاہ کرے گا۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…