جمعرات‬‮ ، 07 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں سے سابق سپیکر ایاز صادق کس طرح نمٹے تھے؟اسد قیصر کو وہی طریقہ اختیار کرنے کا مشورہ دیدیا گیا

datetime 27  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پی ٹی آئی ارکان کے استعفوں سے سابق اسپیکر ایاز صادق کس طرح نمٹے تھے؟ موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی بھی متوقع استعفوں پر وہی طریقہ کار اختیار کرسکتے ہیں۔روزنامہ جنگ میں طارق بٹ کی شائع خبر کے مطابق قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق

کے پاس جب پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی نے استعفے جمع کیے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ان استعفوں کو اعلی عدلیہ کے فیصلوں کی روشنی میں آئین اور قانون کے مطابق دیکھا جائے گا۔ 6 اپریل، 2015 کو دیئے گئے اپنے حکم میں انہوں نے کہا تھا کہ مسلسل 40 روز تک رکن کی غیرحاضری کی وجہ سے خالی رہنے والی سیٹ پر آئین کے آرٹیکل 64 (2) کے تحت یہ بات اسمبلی کے نوٹس میں لائی جاتی ہے۔ تاہم، یہ تحریک قانون ساز بھجواتے ہیں اور اس کے بعد ایوان اس کو قبول یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، یہ کام سپیکر نہیں کرتا۔ تاہم، اب تک کوئی تحریک سامنے نہیں آئی ہے۔ ایاز صادق نے 3 ستمبر، 2014 کو تحریر کیا تھا کہ پی ٹی آئی وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے دیگر ارکان کے ساتھ مشترکہ بیٹھک میں سیشنز میں شرکت کی تھی۔ انہیں اسپیکر چیمبرمیں آکر استعفوں سے متعلق بات چیت کا کہا گیا تھا مگر وہ تقریر کرکے پی آئی آئی قانون سازوں کے ہمراہ ایوان سے چلے گئے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے

استعفوں کی توثیق کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایاز صادق نے کہا تھا کہ استعفیٰ ان کے آفس میں جمع کروائے گئے تھے اور وہ ذاتی حیثیت میں سپیکر کو نہیں دیئے گئے تھے اس لیے آئین اور قانون کے مطابق، انہیں نوٹسز جاری کیے گئے تاکہ وہ اسپیکر چیمبر میں آکر اس کی توثیق کریں۔

اس سے قبل 2 ستمبر، 2014 کو جاوید ہاشمی جو کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھتے تھے، ایوان میں شریک ہوئے اور تقریر کی اور اس کے آخر میں اسپیکر سے استعفیٰ قبول کرنے کی درخواست کی ، جسے تسلیم کرکے نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ ایاز صادق نے 1976 میں سپریم کورٹ

کی جانب سے آرٹیکل 64 کی تشریح کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں کہا گیا تھا کہ اس شق کے تحت اسپیکر کا یہ فرض اور حق ہے کہ وہ استعفوں کی حقانیت کی توثیق کرے۔ جب کہ اگر اسپیکر ضروری سمجھے تو اس کی انکوائری بھی کرواسکتا ہے۔ تاہم، انکوائری کا انحصار کیس کی

نوعیت سے مختلف ہوسکتا ہے۔ فیصلے میں رول 43 کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی رکن تحریری طور پر اپنا استعفیٰ اسپیکر کو بھیج سکتا ہے۔ اگر وہ ذاتی حیثیت میں اسپیکر کو یہ استعفیٰ دے اور اسپیکر کو بتادے کہ وہ رضاکارانہ طور پر مستعفی ہورہا ہے۔

جب کہ دوسری صورت میں اگر اسپیکر کو اس متعلق کوئی علم نا ہو یا اسپیکر کو استعفیٰ کسی اور ذریعے سے ملا ہو تو وہ انکوائری کے بعد چاہے وہ ذاتی حیثیت میں کی جائے یا قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذریعے یا کسی اور ایجنسی کے ذریعے کی جائے جس کے بعد اگر وہ مطمئن ہو کہ استعفیٰ حقیقی ہے تو وہ اسمبلی کو اس بارے میں آگاہ کرے گا۔ اگر کسی رکن نے اس وقت استعفیٰ دیا ہے کہ جب اسمبلی سیشن نا ہورہا ہو تو اسپیکر فوری طور پر اس سے متعلق تاریخ کے ساتھ ہر رکن کو آگاہ کرے گا۔

موضوعات:



کالم



دوبئی کا دوسرا پیغام


جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…

فیک نیوز انڈسٹری

یہ جون 2023ء کی بات ہے‘ جنرل قمر جاوید باجوہ فرانس…

دس پندرہ منٹ چاہییں

سلطان زید بن النہیان یو اے ای کے حکمران تھے‘…

عقل کا پردہ

روئیداد خان پاکستان کے ٹاپ بیوروکریٹ تھے‘ مردان…