کراچی (نیوزڈیسک)پاکستان پیپلزپارٹی کانقصان کیسے پوراہوگا؟ پیپلزپارٹی نے پنجاب کیسے اور کس طرح کھویا جوایک وقت اس کا مضبوط گڑھ ہوا کرتا تھا۔ اس کے تجزیہ کی ضرورت ہے۔ ان زمینی حقائق کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا کہ پارٹی نے کس طرح اپنے نظریہ سے انحراف کیا۔ کسانوں، مزدوروں، طلباء اور محنت کش طبقے میں اپنی بنیادیں کھو دیں۔ وہ متوسط طبقے اور نوجوانوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہی۔ پیپلزپارٹی کی جس رہنماء کی قیادت میں بدترین کارکردگی رہی، اس کے بارے میں میں کرپٹ ہونے کا تاثر حقیقت سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پارٹی کے اندر حقائق کا احساس اورشعور موجود ہے یا نہیں ؟.معروف سیاسی تجزیہ کارمظہرعباس کے مطابق بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو کی جانب سے ٹیلی فون کال کے ذریعہ کچھ رہنمائوں کو شاید پارٹی نہ چھوڑنے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا۔ شاید جاگیردارانہ سوچ یا کسی خراب مشورے نے بلاول یا زرداری کو ایسا کرنے سے روکا ہو۔ پیپلزپارٹی میں انتہائی باخبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلزپارٹی کی قیادت بیرون ملک پارٹی کے اعلیٰ سطح خفیہ اجلاس کرے گی جس میں نیچے سے اُوپر تک پارٹی کی تنظیم نو کی جائے گی۔ یہ ایک طرح سے آر یا پار والا اجلاس ہوگا۔ ذرائع نے کہا کہ مسلسل شکست اور پارٹی رہنمائوں کے منحرف ہونے کا احساس موجود ہے۔ بیرون ملک اپنی نوعیت کا پہلا اجلاس پارٹی کی ٹھوس پالیسی طے کرکے ہی اُٹھے گا۔ نوجوان بلاول کو اپنے نانا یا والدہ کے مقابلے میں زیادہ سخت چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ان کے والد آصف زرداری نے بعض نہایت سیاسی جرأت مندانہ فیصلے کئے لیکن اپنے بارے میں تاثر بد کو دُور نہیں کر سکے۔ 1986ء میں جب بینظیر بھٹو جلا وطنی سے وطن واپس لوٹیں، اس وقت سے پارٹی نے کئی رہنمائوں کو آزمایا لیکن ان میں سے کوئی بھی پارٹی کو کامیابی کی پوزیشن میں نہیں لا سکا کیونکہ بھٹوکی پھانسی کے بعد پارٹی قیادت نے پنجاب کو نظرانداز کیا۔ لیکن منظور وٹو کی تقرری، جو مشکل ہی سے ایک جیالے ہیں، آصف زرداری کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ وہ پارٹی کو متحد اور نہ ہی تسلیم کرا سکے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد تو انہیں ہٹا دیا جانا چاہئے تھا۔ ایک ایسے وقت صمصام بخاری اور دیگر قابل احترام رہنمائوں کا پارٹی سے منحرف ہونا، تحریک انصاف میں ان کی شمولیت اور کچھ بڑے رہنمائوں کا پارٹی سے پرواز کے لئے پر تولنا پیپلزپارٹی کے لئے کچھ اچھے اشارے نہیں ہیں۔ پارٹی کے پاس پنجاب میں اکتوبر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے لئے وقت نہیں بچا ہے جیسا کہ آج صورتحال ہے اگر بلدیاتی یا عام انتخابات ہوتے ہیں تو پیپلزپارٹی پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے قریب تک نہیں پہنچ سکتی۔ تاریخی اعتبار سے جب کوئی سیاسی پارٹی اپنے نظریہ سے منحرف، اپنی بنیاد کھو دیتی، اس کا کوئی پروگرام یا وژن نہیں ہوتا تو پھر وہ دیگر کے لئے جگہ چھوڑ دیتی ہے۔ مقبول عام اور ہر دلعزیز رہنماء ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ خصوصاً پنجاب کے ٹریڈ یونین، طلبہ یونین، سول سوسائٹی اور معاشرے کے سیکولر طبقات میں اس کا اثر و رسوخ باقی نہیں رہا۔ جب پرویز مشرف نے نوازشریف کا تختہ اُلٹا تو اسے شرف قبولیت بخشنا پیپلزپارٹی کی بڑی غلطی اور پھر این آر او دوسری بڑی غلطی رہی، لیکن پارٹی نے اس وقت اپنا اثر و رسوخ کھو دیا جب اس نے اپنی بنیادوں کو منتقل کرتے ہوئےجاگیرداروں اور کاروباری طبقے سےرشتہ جوڑ لیا۔ یہ سمجھے بغیر کہ یہ طبقات شریف برادران کے ساتھ خود کو زیادہ سہولت میں محسوس کرتے ہیں۔ آج عمران خان کی تحریک انصاف یہ خلاء پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟ شریف برادران کے گڑھ پنجاب میں دراڑیں ڈالنے میں عمران خان کو 20 سال کا عرصہ لگا۔ جس جارحانہ انداز میں انہوں نے شریف برادران کو چیلنج کیا، نوجوانوں کو اُمید دلائی، اس نے پنجاب میں پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ پیپلزپارٹی کے نوجوان طبقے کی عمران خان کی جانب متوجہ ہونے کی تین وجوہ ہیں۔ (1) شریف برادران کے ساتھ ان کا جارحانہ رویہ، (2) پرکشش شخصیت و شفاف ریکارڈ اور (3) نوجوانوں میں اُمید جگانا۔ 1980ء کی دہائی کے بعد کے پیپلزپارٹی کے زیادہ تر رہنماء اور کارکن شریف یا چوہدری برادران کو چیلنج کرتے ہوئے ہی پروان چڑھے ہیں جنہیں وہ ضیاء الحق کی باقیات سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں پیپلزپارٹی کا توڑ کرنے کیلئے جنرل جیلانی نے شریف برادران کو متعارف کرایا۔ یہ سچ ہے کہ شریف برادران نے وقت کے ساتھ مسلم لیگ میں اصلاحات کیں اور اسے اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کے قابل بنایا، لیکن پیپلزپارٹی کے لئے جگہ بنانے کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ سب سے بڑی غلطی بے نظیر بھٹو نے کی جب 10 اپریل 1986ء کو وطن واپسی کے بعد انہوں نے پنجاب کو اپنا گڑھ نہیں بنایا اور اپنے والد کے اس مشورے کو نظرانداز کر دیا کہ سیاست پنجاب ہی سے چلتی ہے، تمام تر مخالفتوں اور چیلنجوں کے باوجود بے نظیر نے ہراول بن کر پارٹی کی قیادت کی۔ وہ جیل گئیں۔ امید سے ہونے کے باوجود جلسے جلوسوں کی قیادت کی۔ لیاری اور راولپنڈی میں انہوں نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا سامنا کیا، اس کا میں عینی شاہد ہوں۔ جارحانہ انداز ہی پیپلزپارٹی کے کارکنوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے کیونکہ وہ پیدائشی طور پر ہی ایجی ٹیٹرز ہیں کسی پارٹی کے پاس ایسے کارکن نہیں جو پارٹی رہنماء کی موت پر خودسوزی کرلیں۔ جئے بھٹو کےنعرے لگاتے پھانسی چڑھ جائیں۔ عمران خان نے اپنی پالیسی یا پروگرام کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے جارحانہ انداز اور نواز مخالفت مؤقف سے انہیں اپنی جانب متوجہ کیا ہے اور دوسرے یہ کہ خود ان کے پارٹی لیڈر انہیں کوئی وژن یا پالیسی دینے میں ناکام ہیں۔ اس خطے میں خاندانی سیاست کو پہلے ہی سے بڑے مشکل وقت کا سامنا ہے۔ بھارت میں سونیا اور راہول گاندھی اپنی بقاء کی جدوجہد میں ہیں۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے بعد شیخ مجیب الرحمٰن کا سیاسی ورثہ ختم ہو جائے گا۔ یہی کچھ بیگم خالدہ ضیاء کے بارے میں کہا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو کا قتل پاکستانی سیاست کا اہم موڑ ثابت ہوا۔ مرتضیٰ یا شاہنواز بھٹو زندہ ہوتے تو وہ شاید اس ورثے کو لے کر آگے چلتے۔ آج کل کی سیاست جمہوریت، نظریات اور کارکردگی کی بنیاد پرہے۔ اگر پارٹی کے شریک چیئرپرسن کے بارے میں انتہائی کرپٹ ہونے کا مضبوط تاثر موجود ہے تو پارٹی کی جانب سےپہلے اس ایشو کو بھی حل کرنے کی برابر کی ضرورت ہے۔لہٰذا پیپلزپارٹی کے بعض رہنمائوں کی تحریک انصاف میں شمولیت سے حیران نہیں ہونا چاہئے اور اس کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کے پرانے گورو شاہ محمود قریشی کو ملنا چاہئے جنہوں نے پیپلزپارٹی میں بڑی دراڑیں پیدا کیں۔ پیپلزپارٹی کے سامنے ایک طویل جدوجہد ہے، اسے اب شروع سے ابتداء کرنی ہے۔ ان کے پاس ہنوزبھی جگہ موجود ہے جو عمران خان اور نوازشریف پُر نہیں کرسکے۔ وہ متوسط طبقہ، کسان اور محنت کش ہیں، لیکن اس کے لئے انہیں نواز شریف اور عمران خان کی جانب سے غلطیوں کے ارتکاب کا انتظار کرنا ہوگا۔ سیاست میں تبدیلی پارٹی میں تبدیلی لائے گی۔ محض قیادت یا تنظیم بدلنے سے کام نہیں چلے گا۔
پاکستان پیپلزپارٹی کانقصان کیسے پوراہوگا؟

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں