یمن میں سکیورٹی خدشات کے تحت جرمنی، سعودی عرب اور اٹلی نے بھی صنعاء سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ دوسری طرف عالمی طاقتیں اس شورش زدہ ملک میں قیام امن کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ عرب ملک یمن میں فعال القاعدہ کے حامی جنگجوؤں سے نمٹنے کی عالمی کوششوں کو ایک دھچکا اس وقت لگا جب حال ہی میں وہاں شیعہ حوثی باغیوں نے حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ اس بغاوت کے نتیجے میں پہلے سے ہی تنازعات میں گھرا یہ ملک مزید شورش کا شکار ہو گیا ہے۔ سکیورٹی کی مخدوش صورتحال کی وجہ سے جمعے کے دن برلن، ریاض اور روم حکومتوں نے بھی کہہ دیا ہے کہ وہ صنعاء سے اپنے اپنے سفارتی عملے کو عارضی طور واپس بلا رہی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ صورتحال میں بہتری کے بعد سفارت خانے دوبارہ کھول دیے جائیں گے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سعودی وزرات خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کو نقل کرتے ہوئے کہا، ’’دارالحکوت صنعاء میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور سیاسی بحران کے نتیجے میں سعودی عرب نے وہاں اپنے تمام تر سفارتی آپریشنز معطل کر دیے ہیں اور سفارتی عملہ نکال لیا ہے۔‘‘ قبل ازیں امریکا، برطانیہ اور فرانس نے بھی بدھ کے دن یمن میں اپنے سفارتخانے بند کرتے ہوئے وہاں سے سفارتی عملہ واپس بلا لیا تھا۔ صنعاء میں تعینات امریکی سفارتی عملے نے وہاں سے بدھ کے دن نکلتے ہوئے اہم اور خفیہ دستاویزات کو ضائع کر دیا تھا جبکہ حساس آلات کو مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا۔ جمعرات کے دن ہالینڈ نے بھی صنعاء میں اپنی سفارتی کارروائیوں کو ختم کرتے ہوئے اپنا عملہ وہاں سے واپس بلا لیا تھا۔ دوسری طرف صنعاء میں اقتدار پر قابض حوثی باغیوں نے کہا ہے کہ اس طرح سفارت خانوں کو بند کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیونکہ دارالحکومت میں سلامتی کی صورتحال بہترین ہے۔ جرمن وزارت خارجہ کی ایک خاتون ترجمان نے یمن سے اپنا سفارتی عملہ واپس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے خبردار کیا کہ اگرچہ اس مخصوص وقت میں صنعاء میں عدم استحکام نہیں ہے لیکن باغیوں کی طرف سے حکومت کا تختہ الٹنے کے نتیجے میں پورے خطے کے لیے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بغاوت ناقابل قبول ہے۔ اطالوی وزارت خارجہ نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی کوششوں سے یمن کا بحران جلد ہی حل ہو جائے گا اور جیسے ہی وہاں سکیورٹی کی صورتحال بہتر ہوتی ہے وہاں سفارتخانہ دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے جمعرات کے دن ہی خبردار کیا تھا کہ یمن ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکا ہے، جہاں یہ ملک ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ نیو یارک میں سلامتی کونسل سے مخاطب ہوتے ہوئے بان کی مون نے یہ بھی کہا تھا، ’’مجھے وضاحت کی اجازت دی جائے کہ یمن ہماری آنکھوں کے سامنے تباہ ہو رہا ہے۔ ہم اس صورتحال میں خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے۔‘‘ دریں اثناء یمن کے جنوبی صوبے شبوہ میں القاعدہ سے منسلک جنگجوؤں نے ایک فوجی کیمپ پر قبضہ کر لیا ہے۔ فوجی حکام کے مطابق اس کارروائی کے دوران پندرہ جنگجو جبکہ بارہ یمنی فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس دوران شدت پسندوں نے درجنوں ٹینکوں کے علاوہ متعدد بکتر بند گاڑیوں اور بھاری اسلحے کی بڑی مقدار پر بھی قبضہ کر لیا۔ بعد ازاں قبائلی مکالمت کے بعد ان جنگجوؤں نے فوجی کیمپ کا انتظام فوج کو سونپ دیا لیکن اسلحہ واپس نہ کیا۔