اسلام آباد (نیوزڈیسک ) عام طورپر ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خواتین جنہیں وراثت میں بریسٹ کینسر کے جراثیم ملیں، انہیں علاج کے باوجود بھی کینسر کا خطرہ موجود رہتا ہے تاہم اب ماہرین نے تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ اس مرض کے علاج کے بعد پیدا ہونے کے امکانات کاوراثت میں ملنے والے جراثیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسی خواتین کو اس مرض کا شکار دیگر خواتین کے مقابلے میں کسی قسم کے خطرناک نتائج کا سامنا نہیں ہوتا ہے۔ یونیورسٹی آف ساو¿تھیمپٹن میں ایسوسی ایٹ پروفیسر برائے بریسٹ کینسر رمزے کٹریس نے یہ تحقیق کی ہے۔ پروفیسر رمزے کا کہنا ہے کہ ان کی تحقیق کی روشنی میں بریسٹ کینسر کا شکار خواتین کو پورے اعتماد کے ساتھ یہ تسلی دی جاسکتی ہے کہ انہیں وراثت میں ملنے والے جراثیم کی وجہ سے کوئی اضافی خطرہ نہیں ہے۔اس مرض سے نجات کیلئے دستیاب ٹریٹمنٹ ان خواتین کیلئے جن کے جینز میں اس مرض کا شکارہونے کا امکان ہے ، بھی اسی قدر موثر ہیں جتنا کہ دیگر خواتین کیلئے۔ واضح کہ بریسٹ کینسر اور اورین کینسر اگرچہ خاندانی امراض نہیں ہیں تاہم ان دونوں امراض کا شکار خواتین کو خبردار کیا جاتا ہے کہ ان کے اس مرض کا شکار ہونے کے بعد ان کی آئندہ نسلوں کی خواتین کے اس مرض کا شکار ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ اس مقصد کیلئے پروفیسر رمزے نے اٹھائیس سو خواتین کے کیسز کا جائزہ لیا تھا۔ یہ تمام خواتین 41برس سے کم عمر تھیں اور ان میں بریسٹ کینسر کی تشخیص اور علاج ہوچکا تھا۔ ماہرین نے پایا کہ وہ خواتین جن کے خاندان میں اس مرض کی تاریخ موجود تھی، ان کے جسم میں دیگر خواتین کے جسم کی نسبت بطور خاص کوئی تبدیلیاں نہ تھیں۔ تحقیقاتی ٹیم نے اب اپنی تحقیق کو جینز اور ٹریٹمنٹ کے طریقے کار کے بیچ تعلق کو تلاش کرنے کیلئے اسی تحقیق کو مزید وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔