کراچی(سی پی پی) پاکستان اسٹیل کے ملازمین نے ادارے کی نج کاری کا فیصلہ مسترد کرتے ہوئے متبادل منصوبہ پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا۔جوائنٹ ایمپلائز ایکشن کمیٹی آف پاکستان اسٹیل کی کونسل کا اجلاس ایکشن کمیٹی کے کنوینرسید نعیم الحق کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں کابینہ کی ذیلی کمیٹی برائے نجکاری کی جانب سے پاکستان اسٹیل کو لیز آٹ کرنے کے پلان کی منظوری دیے جانے کے فیصلے پر غور و خوص کیا گیا۔
اجلاس میں اتفاق رائے سے پاکستان اسٹیل کی لیز آٹ سمیت ہر قسم کی نجکاری کو مسترد کرتے ہوئے اس بات کا عزم کیا گیا کہ پاکستان اسٹیل کی پبلک سیکٹر میں بحالی اور ملازمین کے حقوق کا ہر صورت میں دفاع کیا جائے گا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان اسٹیل کی بحالی کیلئے متبادل پلان پیش کیا جائیگا۔ اس مقصد کیلئے دوست تنظیموں ، پبلک سیکٹر کے دیگر اداروں، معیشت دانوں، دانشوروں اور ماہرین سے مدد لی جائے گی۔اجلاس میں نیشنل لیبر کانسل کے اجلاس منعقدہ 24 فروری 2018، کراچی کے شرکا کی جانب سے پاکستان اسٹیل اور پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف مذمتی قرارداد کی منظوری کو مستحسن قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسٹیل کے ملازمین کو جدوجہد کے آغاز میں ہی اس قرارداد سے حوصلہ ملاہے۔ اجلاس نے مشترکہ جدوجہد کیلئے کمیٹی کے قیام کا بھی فیصلہ کیا۔ایکشن کمیٹی نے آئندہ ہفتہ سے عملی جدوجہد کا فیصلہ کرتے ہوئے ملازمین کی بھر پور شرکت کیلئے رابطہ کاری کا پلان منظور کیا۔ اجلاس نے فیصلہ کیا کہ اپنی جدوجہد میں سیاسی پارٹیوں اور تمام شعبہ ہائے زندگی کی آرگنائزیشنز کو شامل کیا جائے گا، مزید براں رابطہ کاری کیلئے کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ایکشن کمیٹی نے اجلاس میں یہ واضح کیا کہ پاکستان اسٹیل کسی وقت بھی ملکی خزانے یا عوام پر بوجھ نہیں تھا بلکہ اسے جان بوجھ کر نا صرف بوجھ بنایا گیا بلکہ حکومتی ناقص پالیسیوں، انتظامی نا اہلیت اور کرپشن کے ذریعے سازش کرکے ملک کے واحد فولاد ساز ادارے کو برباد کیا گیا۔
پاکستان اسٹیل کی ضرورت آج بھی مسلمہ ہے۔ ویسے بھی جب حکومت اس لیز آٹ کرنا چاہتی ہے تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اس ادارے کو چلایا جا سکتا ہے۔ جب نجی شعبہ اس چلا سکتا ہے تو حکومت پاکستان اسے خود کیوں نہیں چلاسکتی۔ایکشن کمیٹی سمجھتی ہے کہ پاکستان اسٹیل کی بندش اور اب اسکی فروخت پاکستان اور ملکی معیشت کے خلاف سازش ہے۔ سی پیک کی تعمیر اور اس کے بعد ملک میں فولاد کی ضروریات میں کئی گنا اضافہ ہو گا جس کا مطلب ہے کہ حکمراں اس اضافی پیداوری ضرورت کے فوائد کو نجی شعبے کو دینا چاہتے ہیں۔