ابوالحسن نوریؒ سے بادشاہ وقت نے اپنی مرضی کا کوئی فتویٰ مانگا مگر انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، چنانچہ بادشاہ نے تین علماء کو گرفتار کروایا، وہ چاہتا تھا کہ ان کو سزا دی جائے، لہٰذا غصے میں آ کر اس نے ان کے قتل کے احکام جاری کر دیے۔جب جلاد قتل کرنے لگا تو بادشاہ نے دیکھا کہ ابوالحسن نوریؒ سب سے آگے کھڑے ہیں، اسے ان کے ساتھ عقیدت بھی تھی، وہ چاہتا تھا کہ باقی دو کو تو قتل کر دیا جائے اور ان کو میں کسی بہانے سے معاف کر دوں، اس لیے وہ کہنے لگا کہ یہ جگہ ٹھیک نہیں ان کو فلاں جگہ پر قتل کرو، اس کا مقصد تھا کہ ان کی ترتیب بدل جائے گی،
جب دوسری جگہ پر ان کو دیکھا تو ابوالحسن نوریؒ پھر آگے کھڑے تھے، وہ بڑا حیران ہوا اور اس نے ان کو قریب بلایا اور کہا کہ یہاں ان کو قتل کرو، تیسری جگہ پھر ابوالحسن نوریؒ آگے کھڑے ہو گئے، بادشاہ نے حیران ہو کر اب ان کو اپنے قریب بلا لیا اور حقیقت بتا دی کہ میں چاہتا ہوں کہ پہلے دوسروں کو قتل کر دیا جائے مگر ہر دفعہ آپ ہی آگے کھڑے نظر آئے، آخر کیا وجہ ہے؟ ابو الحسن نوریؒ نے فرمایا کہ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جب میںآگے کھڑا ہوا تو جتنی دیر اس جلاد کو مجھے قتل کرنے میں لگے گی میرے ان بھائیوں کو اتنی دیر کے لیے زیادہ زندہ رہنے کا موقع مل جائے گا۔