اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ایک گاؤں میں ایک اجنبی شخص آیا اور اس نے اعلان کروایا کہ وہ گاؤں والوں سے ایک بندر 10روپے میں خریدی گا۔ اس گاؤں کے اردگرد بہت زیادہ بند ر تھے ، دیہاتی بہت خوش ہوئے ، انہوں نے بندر پکڑنا شروع کر دیئے۔ اس آدمی نے ایک ہزار بندر 10،10روپے کے بدلے میں خریدے ، اب گاؤں میں بندروں کی تعداد کافی کم ہو چکی تھی ، چند ایک بندر باقی تھے جنہیں پکڑنا دشوار ہو گیا تھا۔ اس وقت تاجر
نے اعلان کیا کہ اب وہ بندر 20روپے میں خریدے گا، اس سے دیہاتیوں میں نیا جذبہ پیدا ہوا اور ایک دفعہ پھر انہوں نے پوری قوت سے بندر پکڑنا شروع کئے۔ چند دن بعد بندر اکا دکا ہی نظر آتے اور اس نئے آئے ہوئے تاجر کے ایک بڑے پنجرے میں تقریباً 1300بندر جمع ہو چکے تھے۔ جب تاجر نے بندروں کی خریداری میں سستی دیکھی تو اس نے فی بندر قیمت 25روپے مقرر کی اور پھر اگلے دن قیمت 50روپے کر دی۔ اس قیمت میں اس نے صرف 9بندر خریدے۔ اب جو بندر بھی نگاہ انسانی کی زد میں آتا ، داخل زندان کر دیا جاتا اس کے بعد وہ کام کے سلسلے میں کسی دور دراز شہر چلا گیا اور اس کا اسسٹنٹ کام سنبھالنے لگا۔اس کی غیر موجودگی میں اس کے اسسٹنٹ نے دیہاتیوں کو جمع کر کے کہا کہ : بھائیو! اس بڑے پنجرے میں تقریباً1450جانور ہیں جو استاد نے جمع کئے ہیں۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ تم سب کو یہ سارے 35روپے فی بندر کے حساب سے بیچ دیتا ہوں ، جب استاد آئے تو تم اسے یہ بندر 50روپے میں بیچ دینا۔ دیہاتی بہت خوش ہوئے اور انہوں نے اپنی ساری جمع پونجی خرچ کر کے بندر خرید لئے۔ اس کے بعد انہوں نے کہیں تاجر کو دیکھا اور نہ اس کے اسسٹنٹ کو بس ہر جگہ بندر ہی بندر تھے۔ اس کہانی سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان ہمیشہ جلد بازی میں اپنے گھاٹے کا سودا کر دیتا ہے جو اس کیلئے عمر بھر کا پچھتاوا بن کر رہ جاتا ہے۔