ایک چوکیدار کسی شاہ کے پاس اس ذمہ داری پر مامور تھا کہ تمام ملازمین پر نظر رکھے تاکہ محل سے وہ کوئی چیز چوری کرکے نہ لے جا سکیں۔ ایک روز اس نے تلاشی کے دوران ایک نئے ملازم کے ہاتھ میں چھوٹا سا صندوق دیکھا تو کرختگی سے پوچھا کہ ’’کیا ہے اس صندوق میں؟‘‘ ملازم نے منمنا کر کہا کہ اس میں محل کے بچے ہوئے کچھ باسی چاول ہیں۔ چوکیدار نے بدستور کرخت لہجے میں کہا کہ ’’اس صندوق کوکھول اور تلاشی دے‘‘
چنانچہ ملازم نے صندوق کھول کر دکھایا۔ اس میں واقعی باسی چاول تھے۔ اگلے روز پھر قطار میں صندوق پکڑے کھڑا تھا، چوکیدار نے پھر تلاشی لی تو وہی باسی چاول برآمد ہوئے۔ تیسرے، چوتھے، پانچویں روز بھی یہی ہوا۔ چوکیدار کے دل میں بدستور شک تھا کہ کچھ تو غلط ہے چھٹے روز چوکیدار نے بہت ہی باریکی سے تلاشی لی۔ صندوق کی لکڑی بھی کریدی، ٹھوک پٹخ کر بھی دیکھا مگر کیا نکلنا تھا؟ نکلے تو صرف وہی باسی چاول۔ ساتویں دن حسب معمول ملازم صندوق کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس نے ملازم کو کونے میں بلایا اور نہایت بے چارگی سے مخاطب ہوا کہ ’’دیکھو مجھے تجربے کی بنیاد پر یقین ہے کہ تم کچھ چراتے ہو مگر میں کوشش کے باوجود نہیں معلوم کرپایا کہ وہ ہے کیا؟ میں تمہیں زبان دیتا ہوں کہ تمہیں نہ گرفتار کروں گا نہ کسی سے شکایت لگاؤں گا۔ بس مجھے اتنا بتا دو کہ تم آخر چراتے کیا ہو؟‘‘ ملازم نے مسکرا کر چوکیدار کے کان میں سرگوشی کی۔ ’’صاحب میں۔۔۔ میں صندوق چراتا ہوں!‘‘ قارئین آپ اسے حکایت کہیں، کہانی کہیں یا پھر لطیفہ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ لوگ ہمارے سامنے چوری کر رہے ہوتے ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا اور جب پتہ چلتا ہے تب بہت دیر ہو جاتی ہے اسی طرح ہمارے قومی خزانے کو بھی دونوں ہاتھوں سے ہماری آنکھوں کے سامنے لوٹا جا رہا ہے اور ہمیں نظر نہیں آ رہا لیکن پتہ ضرور ہے کہ مال لوٹا جا رہا ہے۔