کراچی (این این آئی) پاکستان اور چین مل کر ایک سیٹلائٹ تیارکررہے ہیں جو پاک چین اقتصادی راہداری روٹس کی نگرانی کرے گا،سندھ کے وزیر ٹرانسپورٹ سندھ سید ناصر حسین شاہ نے جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلینٹری اسٹروفزکس کو چوتھی قومی کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ مجھے ملک کے نامور سائنسدانوں اور نوجوان ریسرچرز سے خطاب کرتے ہوئے انتہائی خوشی ہورہی ہے۔اسپیس ٹیکنالوجی دنیا کی ہر صنعت اور شعبہ میں انقلابات برپاکررہی ہے اور معیشت کی ترقی میں اہم کردار اداکررہی ہے۔ٹرانسپورٹیشن ،مواصلاتی نظام ،دفاعی نظام اور میڈیکل سائنس میں بھی اسپیس ٹیکنالوجی اپنا مثبت کردار اداکررہی ہے ۔ہماری وزارت اسپیس ٹیکنالوجی سے بھر پور استفادہ کررہی ہے جن میں شاہراہوں اور بندرگاہوں کی نگرانی سرفہرست ہیں۔پاکستان اور چین مل کر ایک ایسا سیٹلائٹ تیارکررہے ہیں جو پاک چین اقتصادی راہداری کے روٹس کی نگرانی کرے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلینٹری اسٹروفزکس کے زیر اہتمام کلیہ سماجی علوم کی سماعت گاہ میں منعقدہ تین روزہ چوتھی قومی کانفرنس بعنوان: ’’اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔جامعہ کراچی کے شعبہ جغرافیہ کے چیئر مین پروفیسر ڈاکٹر جمیل حسن کاظمی نے کہا کہ کراچی کا 51% فیصد رقبہ پہاڑیوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے کراچی کا دوتہائی رقبہ تاحال غیر آباد ہے،اسپیس سائنس ہرشعبہ ہائے زندگی کو ترقی کی منازل تک پہنچانے میں اہم کردارکا حامل ہے۔کراچی میں سب سے زیادہ گرم دن 1938 ء میں ریکارڈ کیا گیا تھا،گذشتہ سال آنے والے ہیٹ اسٹروک کی بڑی وجہ عمارتوں کی تعمیر میں غیر مناسب میٹریل کا استعمال ہے جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہوتاہے اور کراچی کو اس وجہ سے ہیٹ آئی لینڈ بنادیا گیا ہے ۔ملیر سے ڈیفنس اور کلفٹن تک کے علاقوں میں درجہ حرارت کا فرق 04 سے 06 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتاہے جو قابل تشویش ہے۔جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس اینڈ پلینٹری اسٹروفزکس کے پروفیسر ڈاکٹر شاہد قریشی نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ طے شدہ قمری کیلنڈر زمانہ قدیم سے ہندوؤں اور یہودیوں کے استعمال میں ہیں۔مسلمان اپنے عقیدے کے مطابق اسلامی مہینوں کی تاریخوں کے تعین کے لئے پہلے سے طے شدہ قمری کیلنڈر استعمال نہیں کرتے ۔سائنسی ،سماجی اور مذہبی لحاظ سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ عالمی قمری کیلنڈر قابل استعمال اور عملی نہیں ہے۔جامعہ کراچی کے شعبہ جغرافیہ کے ڈاکٹر سلمان زبیر،پروفیسر ڈاکٹر جمیل حسن کاظمی اور ڈاکٹر لبنیٰ غزل نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی کے 65% فیصد اسکول اپنی نامناسب محل وقوع کی وجہ سے روڈایکسیڈنٹس جیسے بڑے خطرات سے دوچار ہیں۔کراچی میں بڑھتی ہوئی روڈ ایکسیڈنٹس کی شرح قابل تشویش ہے جس کے سد باب کے لئے حکومت کو چاہیئے کہ مذکورہ اسکولز کے قیام میں روڈ سیفٹی کے اقدامات اور بالخصوص جی آئی ایس کی تکنیک کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تاکہ اسکول جانے والے طلبہ ان حادثات سے محفوظ رہ سکیں۔جامعہ پنجاب اور انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی اسلام آباد کے خالد محمود ،اقراء باسط،رداحافظہ اور سمعیہ رباب نے اپنا مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں دریاراوی اور کنال پانی کے ذرائع میں شامل ہیں۔مگر المیہ یہ ہے کہ جدید طرز ندگی ،اربنائزیشن ،صنعتی فضلا اور ناقص سیوریج کے نظام کے باعث لاہور کے پینے کے پانی کا معیار بری طرح متاثر ہورہاہے ۔