کابل/اسلام آباد(نیوزڈیسک)افغانستان میں آنے والے زلزلے کی جانچ کرنے والے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ یہ بہت وسیع تھا تاہم خیریت یہ ہے کہ یہ بہت گہرا تھا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق پہلے زلزلے کی شدت امریکی جیولوجیکل سروے نے 7.7 بتائی تھی تاہم بعد میں اسے 7.5 کے زمرے میں رکھا گیا ۔ نظر ثانی تخمینے کے باوجود آنے والا یہ زلزلہ انتہائی شدید تھا اور پوری دنیا میں ہر سال 7.0 یا اس سے زیادہ شدت کے صرف 20 زلزلے آتے ہیں۔رواں سال نیپال میں اپریل میں آنے والے 7.8 شدت کے تباہ کن زلزلے کے مقابلے یہ 200 کلو میٹر سے بھی زیادہ گہرائی میں وقوع پزیر ہوا تھا۔ نیپال والا زلزلہ صرف آٹھ کلو میٹر گہرائی میں واقع ہوا تھا اور اس کے بہت سے آفٹر شاک آئے تھے جن میں سے ایک مئی کے اوائل میں 7.3 شدت کا تھا۔اسی طرح 10 سال قبل کشمیر میں آنے والا زلزلہ 7.6 شدت کا تھا اور یہ زمین کے 26 کلومیٹر اندر واقع ہوا تھا۔ آنے والے زلزلے کے زیادہ گہرائی میں ہونے کی وجہ سے زمین نسبتا کم ہلی لیکن اس کے اثرات زیادہ وسیع علاقے تک محسوس کیے گئے۔سعودی عرب میں شاہ عبداللہ یونیورسٹی میں زلزلے کے ماہر سائنسدان پروفیسر مارٹن مائی کے مطابق اس کے پھٹنے کی جہات اسی طرح کی ہیں لیکن چونکہ یہ زمین کی سطح سے بہت زیادہ نیچے برپا ہوا ہے اس لیے قوت تو اس کی وہی ہوتی ہے لیکن کم گہرائی میں برپا ہونے والے زلزلے کے مقابلے اس کی شدت کم ہوتی ہے۔ آنے والا زلزلہ اپریل اور مئی میں نیپال میں آنے والے زلزلے کا مجموعی نیتجہ ہے اور بھارتی علاقوں کا شمال میں یوریشیا کے براعظم سے ٹکرانے کا سست عمل ہے۔ لیکن یہ براہ راست منسلک نہیں ہے۔اوپن یونیورسٹی کے ماہر ارضیات پروفیسر ڈیوڈ روتھیری نے کہا کہ اس سے نیپال کے زلزلے براہ راست منسلک نہیں ہیں اور یہ اس کے سلسلے کا حصہ نہیں ہیں۔ہندو کش کے پہاڑی سلسلے بھارت کے کونے پر ہیں نہ کہ برا اعظموں کے ٹکرانے کی فرنٹ لائن میں جہاں ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ کھڑا ہے اور جس کی وجہ سے بھارت ہر سال 40 سے 50 میلی میٹر چھوٹا ہو رہا ہے یہ وہ علاقہ ہے جہاں بھارت اور افغانستان کے کونے ملتے ہیں اور ہمالیہ کی فالٹ لائن ہے یہاں بہت چھوٹی چھوٹی ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی فالٹ لائنز ہیں جو مختلف سمت میں ایک دوسرے کو دھکا دیتی رہتی ہیں۔پروفیسر مائی نے بتایا کہ یہ بہت پیچیدہ علاقہ ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں لاکھوں سال کے دوران بہت سی (ٹکٹونک) پلیٹیں ٹکرائی ہیں اور یہ پیچیدہ خطہ اس طرح بنا ہےبہت سی فالٹ لائنوں کی میپنگ کی گئی ہے تاہم اب ان میں سے بہت سی بے حرکت ہیں لیکن اس قسم کے زلزلوں سے ان میں سے کوئی کبھی بھی حرکت میں آسکتی ہے۔خوش قسمتی یہ ہے کہ جس علاقے میں زلزلہ آیا وہاں عموما زلزلے کا مرکز گہرائی میں ہوتا ہے۔پروفیسر مائی نے کہا کہ یہ وہ علاقے ہیں جہاں عام طور پر 100 سے 200 کلومیٹر کی گہرائی میں ہی زلزلے آتے ہیں جبکہ 2005 کا زلزلہ اس علاقے سے 300 کلومیٹر جنوب مشرق میں آیا تھا اس لیے وہ زیادہ گہرا نہیں تھا۔