لاہور(این این آئی) تحریک لبیک یا رسول اللہ و تحریک صراط مستقیم پاکستان کے زیر اہتمام عالمی وباء کرونا وائرس کے موضوع پر ویڈیو لنک کے ذریعے ”اینٹی کرونا سیمینار“ کا انعقاد کیا گیا۔ تحریک لبیک کے سربراہ ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی نے اینٹی کرونا سیمینار میں چار گھنٹے خطاب کیا۔
انہوں نے قرآن و سنت کے ناقابل تردید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بیماری کے آنے اور اس سے شفاء پانے میں امت مسلمہ کا ایک طے شدہ نظریہ ہے جسے پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا کیونکہ اس نظریے کا تعلق براہ راست عقیدہ تقدیر کے ساتھ ہے جس کے لحاظ سے معمولی سی لغزش بھی انسان کے ایمان کو برباد کر دیتی ہے۔ اسلام احتیاط کا حکم دیتا ہے لیکن جو احتیاط اسلامی اعتقاد کے منافی ہو اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اسباب اور تدابیر کا اختیار کرنا شریعت میں جائز ہے مگر جو تدبیر عقیدہ تقدیر سے ٹکرائے اس کی ہرگز اجازت نہیں۔ یہ ایک شرعی حقیقت اور اسلامی عقیدہ ہے کہ کوئی بیماری بھی اڑ کر نہیں لگتی، کوئی بیماری بھی متعدی نہیں ہوتی اور کوئی تندرست بیمار کے قریب جائے تو بیمار نہیں ہوتا، یہ بات صریح مرفوع اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ یہ حقیقت اس لیے بھی قطعی ہے کہ یہ رسول اللہؐ اور کبار صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا عمل بھی ہے۔ ان کے عمل سے جذام کے مریضوں کو اپنے ساتھ کھانا کھلانا، اُن کا جھوٹا پینا، اُن کا ہاتھ اپنے ہاتھ سے پکڑ کر برتن میں رکھنا، خاص ان کے کھانے کی جگہ سے نوالہ اٹھا کر خود کھانا، جہاں منہ لگا کر مجذوم نے پیا، جان بوجھ کے اسی جگہ منہ رکھ کے خود نوش کرنا ثابت ہے۔ یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ؐ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کبھی بھی آیت کریمہ کہ ”اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو“ کی ہر گز مخالفت نہیں کر سکتے تھے۔ چنانچہ عدویٰ یعنی ایک کی بیماری اللہ تعالیٰ کے چاہنے کے بغیر دوسرے کو لگ جانا سراسر باطل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسرے موقف پر بھی کچھ احادیث ہیں مگر وہ صِحّت کے اُس بلند درجہ پر نہیں جس درجہ عالیہ صحت پر عدوی کی نفی والی احادیث ہیں۔ نیز کوئی حدیث بھی ثبوت عدوی (یعنی ایک کی بیماری اللہ کے چاہنے کے بغیر دوسرے کو لگ جانا) اس پر صریح نص نہیں ہے جبکہ ”عدویٰ“ کی نفی والی احادیث اپنے مُدّعا میں نصِّ صریح ہیں۔ صحیح مسلم شریف کی جس حدیث میں رسول اللہ ؐ نے ثقیف قبیلہ کے ایک مجذوم کو دور ہی سے لوٹا دیا۔ وہ اس لیے نہیں لوٹایاتھا کہ اس سے دوسروں کو بیماری نہ لگ جائے بلکہ اس کی اور وجوہات تھیں۔ محدثین نے اس کی چھ وجوہات بیان کی ہیں۔ مثلاً: ممکن ہے یہ وجہ ہو کہ اس کی طبیعت کا خیال رکھتے ہوئے کہ جذام کا مریض تندرست اور خوشحال لوگوں کے مجمع میں آنے سے شرماتا ہے،
رسول اکرم ؐ نے اس پر مہربانی کرتے ہوئے دور ہی سے اس کی بیعت کو قبول کر لیا اور اسے رخصت دے دی۔ ”جذام کے مریض سے شیر کی طرح اسے خطرناک سمجھتے ہوئے اس سے بھاگنا“ اس حدیث کو بعض آئمہ نے تو کہا ہی منسوخ ہے اور بعض نے کہا اس سے دور رہنے کا حکم مجذوم سے آنے والی ناگوار بدبو کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ یا اس لیے کہ اسے دیکھ کر تندرست بندے کے اندر تکبر پیدا نہ ہو۔ یا مریض بندہ تندرست لوگوں کو دیکھ کر اپنے مرض کی وجہ سے زیادہ پریشان نہ ہو جائے اور ا پنے اوپر ہونے والے اللہ تعالیٰ کے دیگر انعامات کو بھول کر، ناشکری نہ کرے۔ ہرگز رسول پاک ؐ کا یہ مقصد نہیں تھا کہ مجذوم سے اس لیے دور رہو کہ کہیں تمہیں اس کی بیماری نہ لگ جائے۔کیونکہ دوسری حدیث میں رسول اکرم ؐنے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ کو بیمار کی معیت اختیار کرنے کا حُکم دیا اور اس کا سبب تواضع اور ایمان کو قرار دیا۔