بدھ‬‮ ، 12 مارچ‬‮ 2025 

غیر ملکی قرضوں،گردشی قرضے اور ناکام سرکاری اداروں کے ساتھ حکومت کا بڑھتا ہوا حجم خطرے کی گھنٹی قرار، ریکارڈ قرضوں نے تشویشناک صورتحال پیدا کر دی، انتہائی تہلکہ خیز دعویٰ

datetime 21  فروری‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ غیر ملکی قرضوں،گردشی قرضے اور ناکام سرکاری اداروں کے ساتھ حکومت کا بڑھتا ہوا حجم بھی ملکی مستقبل کے لئے بڑا خطرہ ہے۔حکومت کا حجم کم کرنا دیگر تمام اخراجات پر قابو پانے سے زیادہ مشکل ہے مگر اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔

میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں غیر ضروری نوکریوں، وزیروں، مشیروں اور فالتو محکموں کی بہتات ہے جس میں کمی کئے بغیر قرضے،امداد، سرمایہ کاری، برآمدات، ترسیلات، اور سی پیک جیسے منصوبوں کا کوئی فائدہ نہیں۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ سال ملکی تاریخ میں پہلی بار قرضوں پر سود کا حجم حکومت کی مجموعی ریونیو آمدنی سے بڑھ گیا اور ملکی نظام چلانے کے لئے قرضوں سے کام چلانا پڑا جس کے بعد ریکارڈ قرضوں نے صورتحال کو مزید تشویشناک کر دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو فیڈرل ڈویزبل پول سے 42.5 فیصد وسائل ملتے ہیں جبکہ اسے قومی اخراجات کا 67 فیصدخرچ کرنا ہوتا ہے جو حیران کن ہے اور حب تک ان بے ضابطگیوں کو درست نہیں کیا جاتا حکومت کے مالی مسائل کم نہیں ہو سکتے۔اس اناملی کو دور کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جو موجودہ سیاسی حالات میں مشکل ہے۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں وفاقی حکومت کے اخراجات میں قریباً50 فیصد قرضوں اور واجبات کی ادائیگی اورآٹھ سے نو فیصد پنشن اور متعلقہ معاملات پرصرف ہوتا ہے جبکہ تیرہ سے چودہ فیصدسول اور فوجی تنخواہوں کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے جس میں کوئی کمی ممکن نہیں۔اس طرح کے ضروری اخراجات کے بعد حکومت کے پاس انفراسٹرکچر منصوبوں، سفید ہاتھی کہلانے والے ناکام اداروں کو رواں رکھنے،توانائی کے شعبہ کو سنبھالنے والے فوجی ساز و سامان کی خریداری اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔

ان حالات کے باوجودہر حکومت سیاسی فوائد کے لئے ملک میں مالی حالت اور مضمرات کو نظر انداز کرتے ہوئے قلم کی ایک جنبش سے سینکڑوں ملازمین کو مستقل کر دیتی ہے جبکہ اہم فیصلوں میں ملکی مفادات اور آنے والی نسلوں کے بجائے آنے والے الیکشن کا سوچا جاتا ہے۔گزشتہ دس سال میں پنشن کے اخراجات 85 ارب روپے سے بڑھ کر 421 ارب روپے ہو گئے ہیں جس سے حکومت کے بڑھتے ہوئے حجم کا اندازہ ہوتا ہے جس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہونے کی امید ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ہم سیاحت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟


میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے سٹاف…

تیسری عالمی جنگ تیار(دوسرا حصہ)

ولادی میر زیلنسکی کی بدتمیزی کی دوسری وجہ اس…

تیسری عالمی جنگ تیار

سرونٹ آف دی پیپل کا پہلا سیزن 2015ء میں یوکرائن…

آپ کی تھوڑی سی مہربانی

اسٹیوجابز کے نام سے آپ واقف ہیں ‘ دنیا میں جہاں…

وزیراعظم

میں نے زندگی میں اس سے مہنگا کپڑا نہیں دیکھا تھا‘…

نارمل ملک

حکیم بابر میرے پرانے دوست ہیں‘ میرے ایک بزرگ…

وہ بے چاری بھوک سے مر گئی

آپ اگر اسلام آباد لاہور موٹروے سے چکوال انٹرچینج…

ازبکستان (مجموعی طور پر)

ازبکستان کے لوگ معاشی لحاظ سے غریب ہیں‘ کرنسی…

بخارا کا آدھا چاند

رات بارہ بجے بخارا کے آسمان پر آدھا چاند ٹنکا…

سمرقند

ازبکستان کے پاس اگر کچھ نہ ہوتا تو بھی اس کی شہرت‘…

ایک بار پھر ازبکستان میں

تاشقند سے میرا پہلا تعارف پاکستانی تاریخ کی کتابوں…