کراچی(این این آئی) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ غیر ملکی قرضوں،گردشی قرضے اور ناکام سرکاری اداروں کے ساتھ حکومت کا بڑھتا ہوا حجم بھی ملکی مستقبل کے لئے بڑا خطرہ ہے۔حکومت کا حجم کم کرنا دیگر تمام اخراجات پر قابو پانے سے زیادہ مشکل ہے مگر اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں غیر ضروری نوکریوں، وزیروں، مشیروں اور فالتو محکموں کی بہتات ہے جس میں کمی کئے بغیر قرضے،امداد، سرمایہ کاری، برآمدات، ترسیلات، اور سی پیک جیسے منصوبوں کا کوئی فائدہ نہیں۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ سال ملکی تاریخ میں پہلی بار قرضوں پر سود کا حجم حکومت کی مجموعی ریونیو آمدنی سے بڑھ گیا اور ملکی نظام چلانے کے لئے قرضوں سے کام چلانا پڑا جس کے بعد ریکارڈ قرضوں نے صورتحال کو مزید تشویشناک کر دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کو فیڈرل ڈویزبل پول سے 42.5 فیصد وسائل ملتے ہیں جبکہ اسے قومی اخراجات کا 67 فیصدخرچ کرنا ہوتا ہے جو حیران کن ہے اور حب تک ان بے ضابطگیوں کو درست نہیں کیا جاتا حکومت کے مالی مسائل کم نہیں ہو سکتے۔اس اناملی کو دور کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے جو موجودہ سیاسی حالات میں مشکل ہے۔انھوں نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں وفاقی حکومت کے اخراجات میں قریباً50 فیصد قرضوں اور واجبات کی ادائیگی اورآٹھ سے نو فیصد پنشن اور متعلقہ معاملات پرصرف ہوتا ہے جبکہ تیرہ سے چودہ فیصدسول اور فوجی تنخواہوں کی مد میں خرچ کیا جاتا ہے جس میں کوئی کمی ممکن نہیں۔اس طرح کے ضروری اخراجات کے بعد حکومت کے پاس انفراسٹرکچر منصوبوں، سفید ہاتھی کہلانے والے ناکام اداروں کو رواں رکھنے،توانائی کے شعبہ کو سنبھالنے والے فوجی ساز و سامان کی خریداری اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے مزید قرضے لینے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچتا۔
ان حالات کے باوجودہر حکومت سیاسی فوائد کے لئے ملک میں مالی حالت اور مضمرات کو نظر انداز کرتے ہوئے قلم کی ایک جنبش سے سینکڑوں ملازمین کو مستقل کر دیتی ہے جبکہ اہم فیصلوں میں ملکی مفادات اور آنے والی نسلوں کے بجائے آنے والے الیکشن کا سوچا جاتا ہے۔گزشتہ دس سال میں پنشن کے اخراجات 85 ارب روپے سے بڑھ کر 421 ارب روپے ہو گئے ہیں جس سے حکومت کے بڑھتے ہوئے حجم کا اندازہ ہوتا ہے جس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ ہوا اور نہ ہونے کی امید ہے۔