کراچی(این این آئی)وفاقی حکومت نے معیشت کو دستاویزی بنانے کیلئے نقد بیئرر چیک کے ذریعے 50 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد اور 10 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے دیگر منقولہ اثاثہ جات کی خریداری پر یکم جولائی 2019 سے جائیدادکی مالیت کے 5 فیصد تک بھاری جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس ضمن میں فنانس بل کے ذریعے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعہ 75 میں ایک نئی شق 75 اے متعارف کروادی گئی ہے، اب ان اشیاء کی خریداری کیلئے کراس چیک،
کراس ڈیمانڈ ڈرافٹ، کراس پے آرڈر اور کسی بھی کراس بینکنگ انسٹرومنٹ کے ذریعے ادائیگی لازمی قرار دی گئی ہے۔تاہم جو نان فائلر پہلے فائلر کے ایک فیصد ٹیکس کے مقابلے میں 2 فیصد ٹیکس دے کر جائیداد خرید سکتے تھے، اب یکم جولائی سے ان پر جائیداد کی مالیت کا 5 فیصد جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ ٹیکس چوری کرکے بنائے گئے آف شور اثاثہ جات کے پکڑے جانے کی صورت میں پاکستان سے جس قدر ٹیکس چوری کیا گیاہو، اس کے 200 فیصد تک جرمانہ وصول کیا جائے گا۔ اگر کوئی فرد پکڑے جانے کے ڈر سے اپنے غیر منقولہ اثاثہ جات کو پاکستان کی حدود سے کسی نا معلوم مقام پر منتقل کرے گاتو اس کے پکڑے جانے کی صورت میں 1لاکھ روپے یا منتقل کئے گئے اثاثہ کی مالیت کے 100فیصد جرمانہ عائد کیا جائے گا، اگر کوئی مالیاتی ادارہ مشکوک بینکنگ ٹرانزیکشن یا دیگر اہم معلومات ایف بی آر اور فنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو ارسال نہیں کرے گا تو اسے پہلی نشاندہی پر10ہزار روپے جرمانہ اور یہ خلاف ورزی جاری رہنے کی صورت میں ہر دن10ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا، اگر کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ کامن رپورٹنگ سٹینڈرڈز کے مطابق گوشوارہ داخل نہیں کرواتا تو ہر مشکوک ٹرانزیکشن کو صحیح انداز میں ظاہر نہ کرنے پر10ہزار روپے جرمانہ اور یہ خلاف ورزی جاری رہنے کی صورت میں ہر ماہ ہر ڈیفالٹ پر10ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا،اگر کوئی بینک یا مالیاتی ادارہ عالمی رپورٹنگ سٹینڈرز کے مطابق اکاؤنٹ ہولڈرز کی شناخت کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کرے گا تو ہر مشکوک ٹرانزیکشن پر10ہزار روپے جرمانہ اور
یہ خلاف ورزی جاری رہنے کی صورت میں ہر ماہ ہر ڈیفالٹ پر10ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔جو مالیاتی ادارہ کسی کھاتے دار کے بارے میں جھوٹی معلومات فراہم کرے گا تو پکڑے جانے کی صورت میں جرمانہ عائد کیا جائے گا۔فنانس بل کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد یکم جولائی 2019سے ملک میں اس قانون کا اطلاق ہوجائے گا۔