جمعہ‬‮ ، 15 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو تبدیل کرنے کے مطالبے کا جواب دیدیا،کھری کھری سنادیں

datetime 15  اگست‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار کو تبدیل کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے جس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات کے باوجود مسلم لیگ (ن) نے وزارت عظمیٰ کے امیدوار شہباز شریف کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماء شیری رحمن اور بلاول بھٹو زرداری مسلم لیگ (ن) کے امیدوار پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں، تاہم بدھ کو پیپلز پارٹی کے تحفظات کے باوجودمسلم لیگ (ن) کے اراکین نے قومی اسمبلی میں سپیکر کیلئے پیپلز پارٹی کے امیدوار خورشید شاہ کو ووٹ دیئے ۔خورشید شاہ سپیکر قومی اسمبلی کیلئے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوارتھے انہوں نے پی ٹی آئی کے اسد قیصر کے مقابلے میں 146 ووٹ حاصل کئے ۔قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد ایک بارپھر خبریں منظر عام پر آئیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ (ن) کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار پر شدید تحفظات ہیں اور پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں کی جانب سے کہا گیا کہ مسلم لیگ (ن) وزارت عظمیٰ کا امیدوار تبدیل کرے ۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار تبدیل کرنے کے مطالبے کو مسترد کردیا ہے ، لیگی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار کا فیصلہ مشترکہ اپوزیشن گرینڈ الائنس میں کیا گیا تھا ، پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں کو اس فیصلے کی پابندی کرنی چاہئے۔نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیئے ہیں ، (ن) لیگ کے فیصلے بلاول بھٹو کرینگے تو پیپلز پارٹی کے فیصلوں کا اختیار شہباز شریف کو دے دیں۔ مشاہد اللہ خان کے مطابق پیپلز پارٹی نے چیئرمین سینیٹ کو تبدیل کرنے کی بات کی ہے،

اگر پیپلز پارٹی نے فیصلہ تبدیل نہ کیا تو چیئرمین سینیٹ بھی تبدیل ہوسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر بھی تبدیل ہونا چاہئے، اپوزیشن لیڈر کا عہدہ اکثریتی پارٹی کو ملناچاہئے۔تفصیلات کے مطابق پاکستان میں 25 جولائی کو ہونیوالے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے سب سے سیٹیں حاصل کیں، پاکستان مسلم لیگ (ن) دوسرے نمبر ، پیپلزپارٹی تیسرے جبکہ ایم ایم اے چوتھے نمبر پر رہی ۔25 جولائی کو رات ہی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل ، ایم کیو ایم سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے الزام عائد کیا تھا کہ گنتی کے عمل سے ہمارے پولنگ ایجنٹس کو باہر رکھا گیا ہے۔

اس موقع پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے انتخابی نتائج مسترد کردیئے اس سلسلے میں متحدہ مجلس عمل اور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے دوسرے روز ہی آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا تھا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی تھی تاہم پاکستان پیپلز پارٹی نے ایم ایم اے کی جانب سے بلائی گئی اے پی سی میں شرکت نہیں کی۔ اے پی سی کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا تھا کہ اے پی سی میں شامل جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کے کامیاب ہونیوالے امیدوار اسمبلی کا حلف نہیں اٹھائینگے تاہم مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں رکنیت کا حلف نہ اٹھانے کے فیصلے کے حوالے سے کہا تھا کہ وہ اپنی جماعت سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کرینگے ۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی نے اپوزیشن کی جانب سے رکنیت کا حلف نہ اٹھانے کے فیصلے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں رہ کر اپنا کردار ادا کریگی۔ بعد ازاں ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمن اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ محمد شہباز شریف کی جانب سے ایک بار پھر سردار ایاز صادق کے گھر پر اجلاس بلایا گیا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وفد نے بھی شرکت کی تھی ۔ اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیریں رحمن نے کہا تھا کہ ایم ایم اے سمیت گرینڈ میں شامل جماعتوں نے پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت ہم خیال جماعتیں مبینہ دھاندلی کیخلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آواز اٹھاتی رہیں گی ،

اس موقع پر انہوں نے کہا تھا کہ مشترکہ اپوزیشن نے وزارت عظمیٰ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے اپنے امیدوار لانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وزارت عظمی کا امیدوار مسلم لیگ (ن) سے ہوگا ، سپیکر کیلئے امیدوار پیپلز پارٹی جبکہ ڈپٹی سپیکر کیلئے امیدوار ایم ایم اے سے لیا جائے گا۔ بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس لاہور میں شہباز شریف کی زیر صدارت منعقد ہوا تھا جس میں الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کا فیصلہ کیا گیا تھا جس پر پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماء شیری رحمن نے کہا تھا کہ احتجاج کے فیصلے پر پیپلز پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تاہم 8 اگست کو الیکشن کمیشن کے باہر ہونیوالے احتجاج میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ (ن) ، عوامی نیشنل پارٹی ، آفتاب شیر پاؤ، محمود خان اچکزئی، ایم ایم اے سمیت ہم خیال جماعتوں نے احتجاج میں شرکت کی تھی۔ اس موقع پر عدلیہ اور عسکری قیادت کیخلاف نعرے بازی کی گئی جس سے پیپلز پارٹی نے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن کے احتجاج کا طریقہ کار درست نہیں اس طریقہ کار سے پیپلز پارٹی کو شدید تحفظات ہیں۔

موضوعات:



کالم



23 سال


قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

ملک کا واحد سیاست دان

میاں نواز شریف 2018ء کے الیکشن کے بعد خاموش ہو کر…

گیم آف تھرونز

گیم آف تھرونز دنیا میں سب سے زیادہ دیکھی جانے…