اسلام آباد(آئی این پی) چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ مجھے ایگزیکٹو کے امور میں مداخلت کا شوق نہیں ہے، خواہش ہے کہ عوام کے حقوق کیلئے کام کرسکوں، پنجاب امراض قلب کے ڈاکٹرز کی کارکردگی سے مطمئن ہوں، ہمیں مزید دل کے اسپتالوں کی ضرورت ہے، ایک جج کی بیٹی کے علاج کا بل ایک کروڑ سے زائد تھا مجھے انتہائی تکلیف ہوئی کہ علاج اتنا مہنگا ہے ۔وہ جمعرات کو کارڈیالوجی کانفرنس سے خطاب کررہے تھے، انہوں نے کہا کہ پنجاب کے امراض قلب کے
ڈاکٹرز کی کارکردگی سے مطمئنہوں۔ہمیں مزید دل کے اسپتالوں کی ضرورت ہے، پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کو مل کر مناسب فیس پر علاج کرنا ہوگا، ایک جج کی بیٹی کے علاج کا بل ایک کروڑ سے زائد تھا، مجھے انتہائی تکلیف ہوئی کہ علاج اتنا مہنگا ہے، ہمیں ایسے اسپتال نہیں بنائے جہاں لوگوں کو نوچا جائے، پاکستان میں ادویات کی قیمتیں مناسب ہونی چاہیں ۔ ڈائیلسیز اور ہیپاٹائٹس کے علاج پر کمیٹی قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے ایگزیکٹو کے امور میں مداخلت کا شوق نہیں ہے۔ خواہش ہے کہ عوام کے حقوق کیلئے کام کرسکوں۔ ایسے عہدے پر ہوں جہاں صرف خدمت کا جذبہ ہے۔ صحت کے امور میں بہتری کیلئے کام کررہے ہیں۔ حالات کے سامنے کبھی بے بس ہوا نہ روکا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم اور صحت قوموں کی ترقی کا سبب بنتے ہیں ۔ تعلیم کو ہم نے بنیادی حق جانا لیکن عمل نہیں کیا۔ ترقی کرنی ہے تو تعلیمی نظام بہتر بنانا ہوگا۔ ابھی ہمارا لٹریسی ریٹ قابل فخر نہیں ہے۔ ہمیں بہترین تعلیمی اداروں اور استاتذہ کی ضرورت ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہمیں عملی طور پر بھی کام کرنا ہوگا تاکہ فائدہ اٹھاسکیں۔ تعلیمی نظام کی از سر نو تشکیل کرنا ہوگی۔ ماہر ڈاکٹروں کو میڈیکل کالجوں میں تدریس بھی کرنی چاہیے۔ ڈاکٹر اظہر کیانی کمیٹی کی رپورٹ آگئی ہے رپورٹ کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا حصہ بنا دیا ہے۔ دل کے اسٹنٹ کی قیمت اب 60ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہوگئی ۔ نجی شعبے کی حوصلہ شکنی نہیں کرتے مگر قیمتیں مناسب رکھیں ۔ انہو ں نے کہا کہ کئی ہسپتالوں میں ایک دن کا خرچ ایک سے ڈیڑھ لاکھ ہے۔