آج وفاقی اینٹی کرپشن کورٹ نے ٹڈاپ سکینڈل میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی پر فرد جرم عائد کر دی‘ آج میاں نواز شریف بھی احتساب عدالت میں پیش ہوئے‘ آپ دیکھئے ملک کے دو منتخب وزراء اعظم عدالتوں میں کھڑے ہو کر کس طرح مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں نہ ڈرنے‘ نہ جھکنے والے جنرل پرویز مشرف نے عدالتی حکم کے باوجود ملک میں واپس آنے سے انکار کر دیا‘ میاں نواز شریف اپنی جماعت کی حکومت ہوتے ہوئے بھی ہفتے میں چار دن عدالت میں پیش ہوتے ہیں‘
گیلانی صاحب بھی ہر سمن پر عدالت میں ہوتے ہیں اور راجہ پرویز اشرف بھی ہر پیشی پر پیش ہو جاتے ہیں لیکن جنرل پرویز مشرف لندن اور دوبئی میں بیٹھ کر پاکستانی عدالتوں کے احکامات کو سگار کے دھوئیں میں (اڑا) رہے ہیں‘ کیوں؟ کیا ہماری عدلیہ کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ‘جی ہاں کوئی جواب موجود ہے‘ نواز شریف کے کیس میں جج کو ایکسٹینشن مل جاتی ہے لیکن مشرف کے کیس کا بینچ ہی ٹوٹ جاتا ہے‘ کیوں؟ اگر ہم ملک میں واقعی کوئی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں انصاف اور احتساب دونوں اکراس دی بورڈ کرنا ہوں گے ورنہ ہم اس اپروچ کے ساتھ ملک کو زیادہ دیر نہیں چلا سکیں گے کہ ہم نواز شریف کو اپنی علیل بیگم کی عیادت کی اجازت بھی نہ دیں اور جنرل مشرف جعلی کمر درد کا بہانہ کرکے دوبئی میں بیٹھے رہیں‘ وہ عدالت میں پیش ہونے سے صاف انکار کر دیں اور عدلیہ اور ریاست خاموش بیٹھی رہی‘ یہ انصاف نہیں‘ یہ عدل نہیں‘ ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں، آج چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے وزیراعظم کے ساتھ اپنی ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، کئی سائل آتے ہیں میں ان کی بات سن لیتا ہوں‘ میرا کام فریادی کی فریاد سننا ہے‘ میاں نواز شریف کو چیف جسٹس کی طرف سے وزیراعظم کیلئے فریادی کے لفظ پر اعتراض ہے‘ کیا یہ اعتراض درست ہے‘ ہم آج کے پروگرام میں یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔