پیر‬‮ ، 07 اکتوبر‬‮ 2024 

حکومت نے بی اے بی ایس سی کو ختم کرکے چار سالہ نیاپروگرام متعارف کرانے کی منظوری دے دی

datetime 27  مارچ‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کوئٹہ ( آئی این پی) بلوچستان اسمبلی کا اجلاس چالیس منٹ کی تاخیر سے سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی کی زیر صدارت شروع ہوا ۔ اجلاس میں جمعیت العلماء اسلام کی حسن بانو رخشانی نے اپنا توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہا کہ وزیر تعلیم مطلع فرمائیں کہ کیا یہ بات درست ہے کہ حکومت نے بی اے ، بی ایس سی کو ختم کرکے بی ایس آنرز متعارف کرانے کی منظوری دی ہے ۔ کیا ایسی تبدیلی لانے سے غریب اور نادرا طلباء وطالبات کا نہ صرف وقت کا ضیاع ہوگا بلکہ پرائیویٹ گریجوایشن بی اے

کرنے کے دروازے بند ہوجائیں گے ۔ وزیر تعلیم طاہر محمودخان نے کہا کہ حکومت نے بی اے بی ایس سی کو ختم کرکے چار سالہ بی ایس پروگرام متعارف کرانے کی منظوری دے دی ہے ۔ ان کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ ایجوکیشن پالیسی2009ء کے مطابق2018ء تک بین الاقوامی سطح پر پاکستان میں دو سالہ ڈگری کورس کو چار سالہ ڈگری سے تبدیل کیا جانا ضروری تھا اور اس سلسلے میں ہائیر ایجوکٗشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق اس کا سلسلہ وار اطلاق10نومبر2015سے ابتدائی طور پر چار کالجز میں کیا گیا تھا بعدازاں دوسرے مرحلے میں مزید38کالجز میں چار سالہ بی ایس کا نفاذ کیا گیا جو کہ نہایت کامیابی سے جاری و ساری ہے ۔ پرائیویٹ طلباء2018ء تک بی اے کا امتحان دے سکتے ہیں ۔ اس موقع پر جے یوآئی کی حسن بانو رخشانی اورشاہدہ رؤف نے پرائیویٹ بی اے ختم کرنے کے فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہاں خواتین کو ریگولر تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں جبکہ ایسے بھی طلباء وطالبات ہیں جو پیسوں کی کمی اور دیگر وجوہات کی بناء پر ریگولر تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اس لئے ان پر پرائیویٹ بی اے کے دروازے بند کرنا زیادتی ہے ۔ وزیر تعلیم نے اراکین کو یقین دہانی کرائی کہ اگر اسمبلی کے اراکین چاہیں تو اس پر بات ہوسکتی ہے اور

اس پرائیویٹ بی اے کے آپشن پر بھی سوچا جاسکتا ہے اس موقع پر سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی نے کہا کہ وزیر تعلیم کی جانب سے ایک اچھا بیان آیا ہے تاہم یہ عوامی نوعیت کا ایک ایسا مسئلہ ہے جو بحث طلب ہے انہوں نے توجہ دلاؤ نوٹس کو نمٹانے اور اس مسئلے کو تعلیم کی قائمہ کمیٹی کے حوالے کرنے کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ ایوان کی قائمہ کمیٹیاں ایک اہم فورم ہے جس پر تمام مسائل پر بحث کرکے اچھا حال نکالا جاسکتا ہے ۔ اس موقع پر شاہدہ رؤف نے کہا کہ قائمہ کمیٹی ایک اہم فورم ہوتا ہے

مگر افسوسناک طو رپر یہ بات نوٹ کی گئی ہے ممبران کمیٹی اجلاسوں میں نہیں آتے ۔ سپیکر نے اس پر تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ قائمہ کمیٹیوں کے اراکین ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اور کمیٹی اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت یقینی بناتے ہوئے قانون ساز میں اپنا کردار ادا کریں اگر کوئی ممبر اجلاسوں سے مسلسل غیر حاضر رہتا ہے اور نہیں آتا تو اس کے لئے بھی ہم قواعد لارہے ہیں ۔اجلاس میں نیشنل پارٹی کے رکن سردار اسلم بزنجو نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ

خضدار کی تحصیل کرخ کے ایک علاقے سن چکو میں گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں مگر موجودہ حلقہ بندی میں اس علاقے کو بلوچستان کی بجائے سندھ میں شامل کیا گیا ہے یہ اقدام بلوچستان کے حقوق کے منافی ہے اگرچہ یہ چھوٹا سا علاقہ ہے مگر یہ شروع دن سے بلوچستان کا حصہ رہا ہے سندھ حکومت نے پہلے بھی اس طرح کی کوشش کی تھی مگر بلوچستان حکومت نے یہ ناکام بنادی اب حلقہ بندی میں اس علاقے کو سندھ میں شامل کیا جانا انتہائی تشویشناک ہے ۔ جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا

کہ اسی سے ملتا جلتا ایک مسئلہ ان کے حلقے کے پنجاب سے متصل علاقے میں پیش آیا ہے جہاں فورٹ منرو کے راستے بلوچستان کی زمینو ں کو پنجاب سے بجلی لائی جارہی ہے قانونی طو رپر یہ نہیں ہوسکتا ہمیں خدشہ ہے کہ آج وہاں بجلی لائی جارہی ہے کل وہاں بھی خضدار کے علاقے کی طرح مسئلہ پیش آجائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب سے ہماری طرف تجاوزات کا سلسلہ جاری ہے اس کا نوٹس لیا جانا چاہئے جس پر سپیکر نے اپنی رولنگ میں اس معاملے کو حلقہ بندیوں سے

متعلق ایوان کی پارلیمانی کمیٹی کے سپرد کرتے ہوئے سردار اسلم بزنجو اور سردار عبدالرحمان کھیتران کو ہدایت کی کہ وہ تحریری طو رپر پوری تفصیل جمع کرائیں تاکہ بلوچستان حکومت اس مسئلے کو حکومت سندھ کے ساتھ اٹھاسکے ۔ صوبائی وزراء میر عاصم کرد گیلو اور پرنس احمد علی بلوچ نے ایوان کو یقین دہانی کرائی کہ بلوچستان حکومت اس مسئلے پر چپ نہیں رہے گی اور نقشے منگوا کر اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائے گی کہ بلوچستان کی حدود میں

کسی قسم کی انکروچمنٹ نہ ہونے پائے ۔صوبائی وزیر ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حلقہ بندیوں کے حوالے سے اراکین اسمبلی کی تشویش بجاہے مجھے لگتا ہے اسلام آبادمیں بیٹھ کر کچھ مخصوص لوگوں کی نشستیں محفوظ کی گئی ہیں ۔اجلاس میں نیشنل پارٹی کے رکن رحمت صالح بلوچ نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ سال2014-15کے دوران حکومت نے صوبے میں اساتذہ کی آسامیاں بذریعہ این ٹی ایس پر کرنے کا فیصلہ کیا جسے تعلیمیافتہ نوجوانوں نے سراہا

اور ان میں خوشی کی لہرپائی گئی اور اس طرح متعدد بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کی میرٹ کی بنیاد پر تعیناتیاں بھی عمل میں لائی گئیں لیکن جن امیدواروں نے پہلی پوزیشنز حاصل کیں یقین دہانی کے باوجود ان کی یونین کونسل کی سطح پر تعیناتیاں عمل میں نہیں لائی گئیں موجودہ حکومت نے اعلان کیا کہ وہ امیدوار جو این ٹی ایس پاس کرچکے ہیں اپنے کاغذات جمع کرائیں لیکن حکومت نے تاحال اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جس کی وجہ سے امیدواران کیمپ میں بیٹھ کر اپنے حق کے حصول کے لئے

سراپا احتجاج ہیں تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ ٹیسٹ پانس کرنے والے امیدوارعمر کی بالائی حدکو پہنچ چکے ہیں جن میں معذور اور خواتین بھی شامل ہیں چونکہ امیدواران مایوسی کا شکار ہیں ان کو مایوسی کے دلدل سے نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت این ٹی ایس میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے امیدواروں کو یونین کونسل کی سطح پر ٹاپ ٹین یا ٹاپ فائیو کی پالیسی اپنا تے ہوئے فوری طور پر یونین کونسل کی سطح پر تعیناتی کے احکامات جاری کرے ۔ انہوں نے تحریک التواء کی

موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جس وقت اساتذہ کی خالی آسامیاں این ٹی ایس کو دینے کا فیصلہ ہوا اس وقت ہم بھی حکومت کا حصہ تھے یہ ایک اچھا فیصلہ تھا مگر اس کے بعد امیدواروں کے ساتھ ناانصافیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا انہوں نے ایوان میں ایک امیدوار کی تعیناتی کے آرڈر لہراتے ہوئے کہا کہ ایک امیدوار کو دو جگہ تعینات کیا گیا ہے بیورو کریسی اس کی ذمہ دار ہے جو امیدواروں کے ساتھ مسلسل مذاق کررہی ہے انہوں نے کہا کہ دو دو لاکھ روپے لے کر آرڈرجاری کئے گئے یہ زیادتی ہے

اس اہم مسئلے پر ایوان میں بحث کرائی جائے صوبائی وزیر تعلیم طاہر محمودخان نے انہیں مسئلے کے حل کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ 180امیدوار جن کی تعیناتی کے احکامات عدالت سے آئے انہیں ان کے اضلاع میں تعینات کیا جارہا ہے اس کے علاوہ15ہزار امیدواروں نے درخواستیں جمع کرائی ہیں اس پر کمیٹی بھی قائم ہے جو کام کررہی ہے ۔ بعدازاں ایوان میں تحریک التواء کی منظوری کے لئے رائے شماری کرائی گئی اور ایوان میں اکثریتی اراکین نے اس کے حق میں رائے دی

جس کے بعد سپیکر نے تحریک التواء کی منظ46ری کی رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ 30مارچ کے اجلاس میں تحریک التواء پر بحث کرائی جائے گی ۔اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے عوامی مفاد کے نکتے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایوان میں کورم کی نشاندہی ہم نے بارہا کرائی اب بھی حکومتی اراکین سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہے ۔ نیشنل پارٹی کے رحمت صالح بلوچ نے کہا کہ انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار کا بل اسمبلی میں آیا ہے جو متعلقہ کمیٹی کے سپرد ہوا ہے ہم چاہتے ہیں کہ

اس پر تفصیلی غور ہو اس لئے اس پر سیر حاصل بحث کے لئے اسمبلی قواعد کے مطابق خصوصی کمیٹی بنائی جائے سپیکر نے کہا کہ یہ بل ایوان میں پیش ہوچکا ہے اور یہاں سے ایوان کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد ہوچکا ہے اگر ممبران چاہیں تو کمیٹی کا حصہ بن سکتے ہیں اس موقع پر انہوں نے رحمت صالح بلوچ اور نصراللہ زیرئے کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کا حصہ بنانے کی رولنگ دی ۔ پوائنٹ آف آرڈر پر جے یوآئی کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے آفیشل گیلری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ

گزشتہ پانچ سالوں سے ہم احتجاج کررہے ہیں کہ آفیشل گیلری میں بیوروکریٹس نہیںآ تے اسمبلی ختم ہونے میں صرف دو ماہ باقی ہیں سپیکر نے رولنگ بھی دی ہم نے احتجاج بھی کیا مگر ایسا لگتا ہے کہ ہم بھینس کے آگے بین بجارہے ہیں جو چند اجنبی چہرے آفیشل گیلری میں موجود ہیں انہیں خ46ش آمدید کہتا ہوں ۔ صوبائی وزیر مواصلات و تعمیرات میر عاصم کرد گیلو نے کہا کہ بیورو کریٹس کی آفیشل گیلری میں عدم موجودگی کا سخت نوٹس لیا جائے گا جتنے بھی غیر حاضر افسران ہیں یقین دہانی کراتا ہوں کہ

اگلی بار وہ اورحکومتی اراکین اجلاس میں شرکت کریں گے اگر آئندہ بیورو کریسی اجلاس میں نہ آئی تو ہم بھی نہیں آئیں گے۔اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ہم پر الزام لگایا گیا ہے کہ محکمہ تعلیم میں ہونے والی بھرتیوں میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر یہ الزامات ثابت ہوجائے تو سخت سے سخت سزا کے لئے تیار ہوں انہوں نے کہا کہ اجلاس میں سیکرٹری اور بیورو کریٹس نہیں آتے کورم بھی پورا نہیں ہوتا آج بھی اپوزیشن اراکین کی تعداد زیادہ ہے آج بھی لائیوسٹاک سے متعلق سوالات تھے

کیا سیکرٹری لائیوسٹاک ایوان میں موجود ہیں ۔بیوروکریٹس کا اجلاس میں ہونا لازم ہے میرا مطالبہ ہے کہ جتنے بھی غیر حاضر افسران ہیں ا ن سے وضاحت طلب کی جائے انہوں نے کہا کہ جو تحریک التواء منظور کی گئی ہے یہ بھی قواعد وضوابط کے خلاف تھی ہم نے پانچ ہزار پوسٹوں کا اعلان کیا تھا جن پر میرٹ پر بھرتیاں ہوئیں جس پر سپیکر راحیلہ حمیدخان درانی نے کہا کہ آپ 30تاریخ کے اجلاس میں اس موضوع پر بات کریں ۔ میں نے متعد دبار بیوروکریٹس کو اجلاس میں اپنی شرکت یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے ۔

صوبائی وزیرمیر عاصم کرد گیلو نے ایک بار پھر یقین دلایا کہ آئندہ اجلاس میں کورم پورا ہوگا اس موقع پر سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ جب موجودہ اپوزیشن اراکین حکومت میں تھے تب بھی پانچ حکومتی اراکین ہوتے تھے مگر اپوزیشن ہمیشہ تعاون کرتی تھی ہم یہاں قانون سازی کرنے کے لئے آئے ہیں اسمبلی سب سے اہم ہے ہم ممبران کو پکڑ کر نہیں لاسکتے جہاں تک بیورو کریٹس کی اجلاس میں شرکت کی بات ہے میں نے اس حوالے سے مراسلہ لکھا ہے اور اب حکومتی وزیر نے بھی

اس حوالے سے یقین دہانی کرائی ہے بیورو کریٹس حکومت کے ماتحت ہیں ماضی میں بھی کئی بار ایسا ہوا لیکن اپوزیشن نے حکومتی اراکین کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور کورم کی نشاندہی نہیں ہوتی تھی انہوں نے کہا کہ جومیرا اختیار آئین اور قانون کے مطابق ہے میں وہی کرتی ہوں زبردستی کسی کو اجلاس میں نہیں لاسکتی چیف سیکرٹری کو لیٹر لکھ سکتی ہوں ، فون کرسکتی ہوں یا چیمبر میں بلا سکتی ہوں ان میں سے دو طریقے کرلئے ہیں اس وقت چیف سیکرٹری شہر میں نہیں ہیں مین نے انہیں فون بھی کرلیا تھا ۔

اراکین کو چاہئے کہ کچھ چیزوں پر چیمبر میں بھی بات ہوسکتی ہے ۔ پشتونخوا میپ کے ڈاکٹر حامد اچکزئی نے کہا کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی جمہوری اقدار کو کبھی پس پشت نہیں ڈالے گی یہ اقلیتی حکومت ہے جس میں بیوروکریسی حکومت چلا رہی ہے بیورو کریسی اس وقت بے لگام ہوچکی ہے پہلے بھی ہم صوبائی وزیر میر عاصم کرد گیلو کی وجہ سے خاموش رہے اور آج بھی ہم جمہوری اقدار کی وجہ سے خاموش ہیں حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ بیور و کریٹس کو پابند کرے کہ وہ اجلاس میں شر کت کریں

کچھ ایسے اراکین بھی ہیں جو بیک وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں میں ہیں ۔ سپیکرراحیلہ حمیدخان درانی نے کہا کہ میں بے بس نہیں ہوں قواعد سے ہٹ کر کچھ نہیں کرسکتی ۔ جے یوآئی کے مفتی گلاب کاکڑ نے کہا کہ جب سے ہم پر کچھ نرمی ہوئی ہے اسی وقت سے کچھ لوگوں کو مسئلہ ہورہا ہے گزشتہ حکومت نے ہمارے ساتھ ناروا رویہ رکھا تھا جس کی وجہ سے آج وہ ہم پر اعتراضات اٹھا رہے ہیں ۔ جے یوآئی کے مولانا عبدالواسع نے کہا کہ ہم پر بے بنیاد الزامات لگائے جارہے ہیں کہ ہم حکومت کا حصہ ہیں

سابقہ حکومت میں بدعنوانی اور کرپشن عروج پر تھی ہم اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی رواداری کا مظاہرہ کرتے تھے کورم پورا نہ ہونے کے باوجود بھی تعاون کرتے تھے تاکہ قانون سازی پر منفی اثرات نہ ہوں حکومت کی اپنی ناکام پالیسیوں کی وجہ سے بغاوت ہوئی اور جب ان کے اپنے اراکین آپس میں لڑپڑے تو حکومت ختم ہوگئی انہوں نے کہا کہ ہم نے روز اول سے عوامی خدمت کا وعدہ کیا ہے ہم نے اپنے دور حکومت میں صوبے بھر میں کالجز ، یونیورسٹیوں ، سڑکوں کا جال بچھایا اور لوگوں کو پینے کا پانی فراہم کیا

لیکن گزشتہ حکومت نے اپنی ٹینکیاں پانی کی بجائے پیسوں سے بھریں ۔ ابھی مولانا عبدالواسع بات کررہے تھے کہ نیشنل پارٹی کے میر خالد لانگو اپنی نشست کھڑے ہوگئے اور شدید احتجاج کیا ۔ انہوں نے کہا کہ خزانہ سکینڈل کو بارباردہرانا اور طعنے کسی صورت درست نہیں جس نے کرپشن کی ہے اسے سزا مل جائے گی اسی اثناء میں جمعیت العلماء اسلام کے مفتی گلاب بھی اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے اور دونوں اراکین کے تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد سپیکر نے اسمبلی کا اجلاس 30مارچ تک ملتوی کردیا ۔بعدازاں اراکین اسمبلی نے میر خالد لانگو اور مفتی گلاب کو الگ الگ دروازوں سے ایوان سے باہر نکالا۔



کالم



کوفتوں کی پلیٹ


اللہ تعالیٰ کا سسٹم مجھے آنٹی صغریٰ نے سمجھایا…

ہماری آنکھیں کب کھلیں گے

یہ دو مختلف واقعات ہیں لیکن یہ دونوں کہیں نہ کہیں…

ہرقیمت پر

اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…