کراچی(آئی این پی) پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی وائس چیئرمین شاہ محمود قر یشی نے کہا ہے کہ اگر دوسال قبل نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرلیا جاتا اورکراچی کی طر ز پرپنجاب اور اندرون سندھ میں رینجرز کا آپریشن شروع کردیا جاتا تو لاہور ، سیہون شریف،اور دیگر علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات پیش نہ آتے ،
دوسال تک نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ کرنا حکومت کے لئے سوالیہ نشان ہے، اکیسویں ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے اور آپس کی مشاورت سے لائی گئی تھی لیکن (ن) لیگ کی موجود سیاسی اور جمہوری حکومت نے اس کا ڈرافٹ تبدیل کردیا اور جب ڈرافٹ تبدیل کیا گیا تو سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ،اب سنا اس پر نظر ثانی کے لئے حکومت نے اجلاس بلایا ہے، آصف علی زرداری لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کی مہارت اور خداداد صلاحیت رکھتے ہیں، لیکن پیپلز پارٹی میں جانے والوں کے حوالے سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب کشتی میں زدیادہ افراد سوار ہوجاتے ہیں تو وہ ڈوب جاتی ہے، فوجی عدالتوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی نے 4مارچ کو آل پارٹیز کانفرنس رکھی ہے ، مجھ سے پیپلز پارٹی کی جانب سے رابطہ کیا گیا اورمجھے بتایا گیا کہ پیپلز پارٹی کا ایک وفد اس حوالے سے بھیجا جائے گا، ان کے وفد سے ملاقات کے بعد ہی پیپلز پارٹی کی اے پی سی کے ایجنڈے کے بارے میں معلوم ہوگا،اس کے بعد شرکت کرنے یا نہ کرنے بارے فیصلہ کرینگے ، سیہون شریف وزیر اعلیٰ سندھ کا حلقہ ہے
جہاں لال شہباز قلند ر کے مزار کا سانحہ پیش آیا وہاں میر ے جانے کے تین روز بعد سندھ حکومت کوہلاک شدگان کے لواحقین اور زخمیوں کے لئے پیسے دینے کا خیال آیا ۔ وہ ہفتہ کو تحریک انصاف کے رہنما حلیم عادل شیخ کی رہائشگاہ پر میڈیا سے گفتگو کررہے تھے،اس میں موقع پر ان کے ہمراہ سندھ کے صدر اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی، حلیم عادل شیخ، دوا خان اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے اندرون سندھ کا چھ روزہ تفصیلی دورہ کیا، میں تھر کے لوگوں کو شکر گزار ہوں کہ انھوں نے مجھے اتنی پزیرائی دی تھر میں میرے ساتھ سندھ کے سابق وزیر اعلی ارباب غلام رحیم، ان کی ٹیم کے افراد میرا اندرون سندھ میں حر جماعت کے لوگوں نے پیر پگاڑا کی ہدایت پرمیرا ہرجگہ استقبال کیا، اس کے علاوہ مخدوم جمیل الزماں،سروری جماعت کے لوگوں نے بھی میرا بھر پور طریقے سے استقبال کیا اور مجھے عزت دی،
اس کے علاوہ ہندو برادری کو بھی مشکور ہوں کہ انھوں نے بھی مجھے بہت عزت دی ، اور مجھے عمر کوٹ میں ہندووں اور مسلمانوں کے اتحاد کو دیکھ کر خوشی ہوئی،میں نے کراچی آمد پر گذشتہ روز پیر پگاڑا سے ان کی رہائشگاہ پر جاکر ملاقات بھی کی ہے ہمارا ان کا دیرینہ اور اباؤ اجداد کا رشتہ ہے۔ میں ان سے ملک کی سیاسی صورتحال پر بات چیت کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مارچ کے مہینے میں میں سندھ کے دورے پر پھر آؤں گا،ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی اور آصف علی زراری سندھ میں اپنا سیاسی وجود رکھتے ہیں کوئی انھیں تسلیم کرے یا نہ کرے، اور انھیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پارٹی میں لوگوں کو شامل کریں او ر ویسے بھی وہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے میں خدادداد صلاحیت اور مہارت رکھتے ہیں، اور جو لوگ پیپلز پارٹی میں جارہے ہیں وہ اپنی سوچ کے مطابق فیصلے کر رہے ہیں،تحریک انصاف سے جو لوگ پیپلز پارٹی میں گئے ہیں نہ تو میں انھیں تحریک انصاف میں لایا تھا
نہ ہی میں نے انھیں روکنے کی کوشش کی، شاہ محمود قریشی نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے پیپلز پارٹی نے 4مارچ کو آل پارٹیز کانفرنس رکھی ہے ، اس سے سلسلے میں مجھ سے پیپلز پارٹی کی جانب سے رابطہ کیا گیا تھا انھوں نے مجھے بتایا کہ پیپلز پارٹی کا ایک وفد اس حوالے سے بھیجا جائے گا، ان کے وفد سے ملاقات کے بعد ہی پیپلز پارٹی کی اے پی سی کے ایجنڈے کے بارے میں معلوم ہوگا،ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جب پشاور میں اسکول کے بچوں کا سانحہ پیش آیا تو اس حالات بہت خراب ہوگئے تھے ، ہم اس وقت دھرنے پر تھے ہم نے اس سانحے کے بعد اپنا درھرنا ختم رکردیا تھا،اور اس وقت حکومت کی جانب سے اے پی سی بلائی گئی تو ہم قومی مفاد کی خاطر اس اے پی سی میں شامل ہوئے تھے جس میں نیشنل ایکشن پلان کا منسوبہ کا اعلان کیا گیا تھا لیکن حکومت کے لئے یہ سوالیہ نشان ہے کہ اس نے نیشنل ایکشن پلان پر کیوں عمل نہیں کیا، اگر کراچی کی طرز پر پنجاب اور اندرون سندھ میں رینجرز کے ذریعے آپریشن شروع کردیا گیا تھا تو آج سہون شریف، لاہور، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دھشت گردی کے یہ واقعات پیش نہ آتے۔
آج دو سال کے بعد پورے جاہ و جلال کے ساتھ رینجرز کا آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے 21ویں ترمیم کی گئی تھی ، انھوں نے کہا کہ ساری دنیا میں دھشت گردی کے خلاف پولیس موثر طریقے سے کارروئیاں کرتی ہے، لیکن ہمارے ہاں ججزاور گواہوں کے تحفظ کے لئے فوجی عدالتوں کے حوالے سے فیصلہ کیا گیا تھا، دراصل وفاقی حکومت کے حوالے سے سارے سوالات اٹھتے ہی ہیں کہ وہ کیا کرتی رہی ہے۔انھوں نے کہا کہ اکیسویں ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے اور آپس کی مشاورت سے لائی گئی تھی لیکن سیاسی اور جمہوری حکومت نے اس کا ڈرافٹ تبدیل کردیا۔اور جب ڈرافٹ تبدیل کیا گیا تو سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔اب سنا اس پر نظر ثانی کے لئے حکومت نے اجلاس بلایا ہے۔انھوں نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ جب بھی ہمارے کوئی واقعہ یا سانحہ پیش آتا ہے اور جب کیمرے کی آنکھ سے وہ واقعہ ہٹ جاتا ہے تو اس کے حقائق کو سامنے نہیں لیا جاتا، جنید جمشید کے جہاز کے کریش ہونے کے واقعے کے حقائق کو بھی سامنے نہیں لایا گیا۔