کراچی (نیوز ڈیسک) قومی اسمبلی میں ایاز صادق کا سامنا کرنا عمران خان کے لئے ایک چیلنج ہوگا۔ جنہوں نے حال ہی میں ان کے ”ت±رپ کے پتّے“ علیم خان کو شکست دی۔ زیادہ تر امکان یہی ہے کہ وہ اپنا اسپیکر کا منصب دوبارہ حاصل کرلیں۔ عمران خان نے 2013ءکے انتخابات پر عدالتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد بھی اس انتہائی اہم فورم قومی اسمبلی پر زیادہ توجہ اور نہ ہی اہمیت دی۔ یہ بھی تحریک انصاف کےسربراہ کے لئے پریشان کن بات ہے۔ اب تک تو انہوں نے باہر سے پارلیمنٹ حکومت اور الیکشن کمیشن کو دباﺅ میں لینے کی کوشش کی۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان آئندہ میدان جنگ بلدیاتی انتخابات میں سجے گا۔ جو 30 اکتوبر سے شروع ہونے والا ہے جو بھی پارٹی بلدیاتی انتخابات جیت کر بڑے شہروں کا کنٹرول حاصل کرے گی، اس کے آئندہ انتخابات میں کامیابی کے بہتر امکانات ہوں گے جنگ رپورٹر مظہر عباس کے مطابق کیونکہ انہیں کام کرنے کی زیادہ گنجائش حاصل ہوگی، لہٰذا ان دونوں بڑی جماعتوں کو پیپلزپارٹی سمیت آرام سے بیٹھے کا کم ہی وقت ہوگا۔ پیپلزپارٹی اس دوڑ میں بہت پیچھے ہے اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا بیان مایوس کن رہا کہ ”ہم دیکھیں گے آئندہ عام انتخاب کب ہوتے ہیں۔“ اس میں کوئی حیران نہیں کہ 2013ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کا صفایا کیوں ہوگیا جبکہ ضمنی انتخابات میں بھی وہ کہیں کی نہ رہی۔ پیپلزپارٹی پہلے ہی ”دفن“ ہو چکی اور بلاول کے لئے اب بہت کم بچا ہے۔ عمران خان جو 2013ء کے عام انتخابات میں ایک مقبول رہنماء بن کر ا±بھرے، اپنا 126 روزہ تاریخی دھرنا ختم ہونے کے بعد انہیں دھچکے ہی برداشت کرنے پڑے ہیں۔ پہلے تو عدالتی کمیشن کی رپورٹ ان کے خلاف گئی، اس کے بعد ضمنی انتخابات میں ان کی پارٹی کو پشاور تا کراچی، ہری پور سے لاہور اور اوکاڑہ تک متواتر شکست کا سامنا کرنا پڑا، اگر انہوں نے غلطیوں سے سبق سیکھا ہوتا تو نتائج مختلف ہوتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے اپنی ذاتی مقبولیت کا گراف برقرار رکھا ہے اور این اے۔ 122 لاہور پر کانٹے کا مقابلہ بھی ان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے ہوا۔ ایسی دلچسپی انہوں نے این اے۔144 اوکاڑہ کے ضمنی انتخاب میں نہیں دکھائی۔ دونوں نتائج اس فرق کو ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن ان کی ذاتی کوششیں پارٹی کی کس حد تک مدد کر سکتی ہیں جب وہ ایک غلط حلقہ انتخاب کے لئے غلط ا±میدوار کا چناﺅ کریں گے۔ لہٰذا پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں عمران خان اور تحریک انصاف کے لئے بڑی آزمائش ہوں گے۔ عمران خان نے پارلیمنٹ کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس پر حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے انہیں تنقید کا سامنا ہے۔ اگر وہ مسلسل غیرحاضر رہے تو انہیں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے کیونکہ آئندہ 6 ماہ میں حکومت اور اپوزیشن نئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ آئندہ عام انتخابات میں صرف دو سال رہنے کے ساتھ اور وہ بھی نئے الیکشن کمیشن کےتحت انتخابات ہوں گے تو پارلیمنٹ کا کردار نہایت اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ عمران خان اس ضرورت کو جتنا جلد سمجھ لیں اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ بڑے افسوس کا مقام ہے کہ جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ کے بعد جس میں ”منظم دھاندلی“ کے ان کی جانب سے عائد الزامات کو مسترد کر دیا گیا۔ انہوں نے گو کہ اپنے ارکان کو متحرک کردار کی اجازت دینے کے باوجود خود قومی اسمبلی میں حاضری سے گریز کیا۔ سوال یہ ہے کہ وہ اب تک پارلیمنٹ کو قبول کرنے پر آمادہ کیوں نہیں؟ مسلم لیگ (ن) نے ا?ئندہ اسپیکر قومی اسمبلی کا فیصلہ کرنے سے قبل این اے۔122 لاہور کے ضمنی انتخاب کے نتیجے کا انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب اس بات کا قوی امکان ہے کہ سردار ایاز صادق کو ہی اسپیکر کے منصب کے لئے نامزد کیا جائے۔ اگر تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی متفق ہو جائیں تو ایاز صادق کو اپوزیشن کے مشترکہ ا±میدوار سے مقابلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایم کیو ایم بھی پارلیمنٹ میں واپس آ جائے گی لیکن وہ شاید مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دے۔ گوکہ تحریک انصاف کے رہنماء جیسے شاہ محمود قریشی، عارف علوی، شفقت محمود اور شیریں مزاری پارلیمنٹ میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اگر عمران خان بھی موجود ہوں توبڑا فرق پڑے گا اور ان کی موجودگی جلد انتخابی اصلاحات کا محرک بن سکتی ہے، لہٰذا یہ دیکھنا ہوگا کہ آیا عمران خان اپنی حاضری سے پارلیمنٹ کو رونق بخشیں گے ؟جب ایاز صادق پہلے قومی اسمبلی میں اپنی ر±کنیت اور بعدازاں اسپیکر کا حلف ا±ٹھائیں گے۔ ماضی میں انہیں قبول نہ کرنے کی بات عمران خان کے پاس وجہ تھی کیونکہ انہوں نے ایاز صادق کے انتخاب کو الیکشن ٹریبونل میں چیلنج کر رکھا تھا اور بالاآخر اپنے حق میں فیصلہ لیا۔ لیکن اب وہ تحریک انصاف کے کچھ تحفظات کے ساتھ آزادانہ اور منصفانہ انتخابی عمل کے ذریعہ قومی اسمبلی میں واپس آ چکے ہیں۔ عمران خان، ایاز صادق کو مبارکباد دے کر اچھی راویت قائم کر سکتے ہیں۔ جو کسی زمانے میں تحریک انصاف میں بھی رہے اور دونوں کے پاس زمانہ طالبعلمی کی خوشگوار یادیں بھی ہیں۔ عمران نے حال ہی میں ایک مثبت بیان دیا کہ وہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں گے، لیکن ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں سنجیدگی سے اپنی سیاسی بلوغت دکھائیں۔ قومی اسمبلی میں ان کی موجودگی دیگر پارٹی ارکان کے لئے محرک بنے گی اور وہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی ایک دوسرے کے قریب لا سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ اسپیکر قومی اسمبلی کے لئے اپوزیشن کے مشترکہ ا±میدوار لانے میں بھی اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی کو نظرانداز کرنے سے ان کی سیاست کو دھچکا لگے گا، کیونکہ انتخابی اصلاحات اور عام انتخابات سے قبل عبوری حکومت کے قیام کا معاملہ، یہ سب کچھ پارلیمنٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے سے ہی طے ہوگا۔ 11 اکتوبر کے انتخابی نتیجے کے بعد ایاز صادق کو عمران خان کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ وہ ان کے مقابلے پر نہ تھے۔ کون جانتا ہے ایسی صورت میں نتیجہ مختلف اور تحریک انصاف کے حق میں زیادہ بڑے فرق سے ا?تا لہٰذا شریف برادران کے لئے ایاز صادق کی کامیابی انتہائی اہم ہونے کے باوجود نہایت کم فرق سے کامیابی مسلم لیگ (ن) کے لئے چشم کشا ہونی چاہئے۔ جہاں انہیں صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی۔ 147 سے محروم ہونا پڑا۔ عمران خان کےنامزد ا±میدوار عبدالعلیم خان تین ہزار ووٹوں سے بھی کم فرق سے ہارے اور تحریک انصاف نے یہاں سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتی، اگر مسلم لیگ (ن) اپنی قومی اسمبلی کی نشست برقرار اور یہاں سے باقی صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں دوبارہ حاصل کرنا چاہتی ہے تو اسے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ نشستیں اس کے ہاتھوں سے کھسکتی جا رہی ہیں۔