منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

کیا الطاف حسین نے خود کو تنہا کرلیا؟

datetime 5  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی (نیوزڈیسک) الطاف حسین کے حالیہ بیان نے نہ صرف انہیں سیاسی طور پر تنہا کر دیا بلکہ ’’مائنس الطاف‘‘ فارمولے کے حامیوں کو بھی تقویت بخشی ہے۔ رابط کمیٹی کی جانب سے وفاداری نبھاتے ہوئے ان کے بیان کے دفاع کے باوجود الطاف حسین نے اپنی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو انتہائی مشکل میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے اپنے حلقے مہاجروں کو بھی حیرانی اور پریشانی میں مبتلا کر دیا کہ اب وہ یہاں سے کہاں جائیں۔ آیا ایم کیو ایم مکمل طور پر بے بس ہے یا آگے بھی کوئی راستہ ہے؟ ایم کیو ایم کی سیاست ہمیشہ سے ’’منزل نہیں رہنما چاہئے‘‘ کے نعرے کے گرد گھومتی رہی ہے، لہٰذا ’’مائنس الطاف‘‘ فارمولا پارٹی کو یکجا نہیں رکھ سکے گا۔ لیکن تب کیا ہو اگر پارٹی رہنما ہی ایسی صورتحال پیدا کر دے جس میں پارٹی کے لئے اس کا دفاع کرنا مشکل ہو جائے؟.روزنامہ جنگ کے معروف سیاسی تجزیہ کارمظہرعباس نے ایک تجزیے میں کہاہے کہ ایسی صورتحال میں جب ایم کیو ایم کو بھارت سے فنڈنگ اور تربیت لینے کا الزام ہے، ان کے حالیہ ریمارکس اپنے اور پارٹی کے لئے تمام تر مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما کے غیرذمہ دارانہ بیان کے باوجود ملک کی سیاسی قیادت نے بڑی حد تک پختگی سے ردعمل ظاہر کیا۔ وہ کسی کو غدار قرار دینے یا پارٹی پر پابندی لگانے کے مضمرات جانتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے یہ کہہ کر کہ ’’قوم ایک ایسے رہنما کے عبرتناک انجام کی منتظر ہے‘‘ کچھ ضرورت سے زیادہ ردعمل کا اظہار کیا۔ ہم ماضی میں پہلے ہی ایسے بیانات کے نتائج دیکھ چکے ہیں۔ عمران خان نے توقع کے مطابق الطاف حسین کے ریمارکس پر شدید ردعمل دیا۔ دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے البتہ متوازن مؤقف اختیار کیا اور اپنی پریس کانفرنس کو ممکنہ قانونی اقدام کئے جانے تک محدود رکھا۔ انہوں نے ’’پاکستان کے خلاف جنگ‘‘ (قانونی اصطلاح) اور لندن میں الطاف حسین کے خلاف زیر التواء مقدمات کا ذکر کیا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ الطاف حسین کے بیان کے انجام اور حکومت کی جانب سے قانونی راستہ اختیار کئے جانے کے قطع نظر یہ بات اہم ہے کہ ایشو سے نمٹنے کی تین صورتیں ہیں۔ اوّل الطاف حسین کے کیس میں لندن اور پاکستان دونوں جگہیں قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے دیا جائے۔ دوسرے ایم کیو ایم کو مرکزی سیاسی دھارے سے نہ کاٹنا یقینی بنایا جائے۔ تیسرے دیہی اور شہری کی تقسیم کی بنیاد پر لسانی تنازع حل کیا جائے۔ خود الطاف حسین کے لئے ان کی تقریر کا نتیجہ سیاسی تنہائی، خطاب پر پابندی اور برطانیہ میں مزید انکوائریز کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ جن کے زیر التواء مقدمات پر منفی و مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ پارٹی کو اپنی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں جاری رکھنے میں مزید مشکلات پیش آ سکتی ہیں اور بالآخر اس کی بین الاقوامی حمایت میں کمی واقع ہو جائے گی۔ ماضی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کے برخلاف جب ماوراء عدالت قتل پر اسے خاطرخواہ سیاسی حمایت حاصل ہوئی تھی، اب صورتحال خاصی مختلف ہے۔ یہ الطاف حسین کی سیاسی تنہائی میں اضافہ کر دے گی۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ رابط کمیٹی ابھی تک الطاف حسین کو اپنے عوامی خطابات محدود کرنے پر آمادہ نہیں کر سکی۔ گزشتہ سات ماہ کے دوران وہ کم از کم تین بار اپنے غیرذمہ دارانہ بیانات پر معذرت کر چکے ہیں، حتیٰ کہ اپنے ٹیلی وژن انٹرویوز میں بھی غلطیوں کا اعتراف کیا، لہٰذا اب یہ وقت نہیں کہ وہ خطابات یا بیانات جاری کرنے کے بجائے اپنی توجہ تنظیمی کام پر مرکوز کریں؟ انہیں مہاجروں کو مبینہ طور پر کچلنے کا کیس جمہوری فورمز جیسے پارلیمنٹ، انسانی حقوق کی تنظیموں، سول سوسائٹی اور عدالتوں میں اُٹھانا چاہئے۔ بجائے اس کے کہ غیرملکی مداخلت کو دعوت دی جائے۔ آپ اپنی پارٹی کے رہنمائوں کو نیٹو فورسز کو مداخلت حاصل کرنے کا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ آپ ہندوستان سے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ مہاجروں کو مبینہ طور پر کچلے جانے سے روکنے میں اپنا کردار ادا کرے؟ حتیٰ کہ ان کے زبردست حامی بھی ان کے دفاع میں مشکل محسوس کر رہے ہیں۔ جن لوگوں سے میں نے بات کی وہ اسے غیرضروری سمجھتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رواں سال جنوری سے جاری بیانات اور خطابات نے الطاف حسین کو سیاسی طور پر نقصان پہنچایا اور اس کا نتیجہ نجی چینلز پر ان کے براہ راست خطاب پر غیرسرکاری پابندی کی صورت میں نکلا۔ ان کے بیانات پر مزید پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے بعض رہنماء اور کارکن پہلے ہی سے قید بھگت رہے ہیں اور انہیں ایسے خطابات کے سہولت کار کی حیثیت سے پوچھ گچھ کا سامنا ہے، لہٰذا ایک ایسے وقت جب خصوصاً بلدیاتی انتخابات سر پر ہیں، سیاسی سرگرمیاں عملی طور پر رُک جانے سے ایم کیو ایم نے کیا حاصل کیا؟ پاکستان اس وقت بڑے مشکل دور سے گزر رہا ہے لیکن اس طرح کی علامات ہیں کہ آئندہ ایک یا دو سال میں دہشت گردی کا مسئلہ حل کر لیا جائے گا۔ جس کے ساتھ ہی اقتصادی اور سیاسی استحکام کی راہ ہموار کرنے کیلئے جرأت مندانہ فیصلوں کی ضرورت ہے۔ تاہم چھوٹے صوبوں کے ایشوز نظرانداز یا سیاست زدہ کئے گئے۔ ماضی میں قوم پرست جماعتوں کو ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے خلاف صرف استعمال کیا گیا۔ ہماری پالیسیوں نے گزشتہ 30 برسوں کے دوران دہشت گردی اور انتہا پسندی کو جڑ پکڑنے کے مواقع فراہم کئے۔ ہماری ان ہی پالیسیوں کی وجہ سے جی ایم سید اور شیخ مجیب الرحمن علیحدگی پسند بنے، عبدالولی خان اور عطاء اللہ مینگل اور ان کی جماعتوں کو طویل قید بھگتنا پڑی۔ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) پر پابندی لگا دی گئی۔ آج بلوچستان کو خصوصی توجہ کی ضرورت ہے اور وزیراعظم نوازشریف نے ایک قوم پرست رہنما کو صوبہ چلانے کی اجازت دے کر جرأت مندانہ فیصلہ کیا، جس سے پنجاب کی طرف سے مثبت پیغام گیا۔ ترقیاتی کام اور سیاسی حقوق تبدیلی لا سکتے ہیں اگر انہیں خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ لاگو کیا جائے۔ سندھ پر حکمرانی بلوچستان کے مقابلے میں کئی طرح سے مشکل ہے۔ ایوب خان کے دور میں ون یونٹ کے خلاف تحریک کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور میں سندھیوں میں احساس محرومی کو دور کرنے کی کوشش کی، لیکن اس عمل میں مہاجروں کے حقوق بھی اُبھر کر سامنے آئے۔ وہ ساٹھ چالیس کا فارمولا اور دس سال کیلئے کوٹہ سسٹم لے کر آئے، لیکن ضیاء الحق کے دور میں لسانی تنازع بگڑ گیا۔ انہوں نے پیپلزپارٹی کو کچلنے کے لئے دیہی شہری تقسیم کو ہوا دی۔ دوسری جانب دیگر علیحدگی پسند رہنما جی ایم سید کو ترجیح اور مہاجروں کو اُبھرنے کی اجازت دی، ان ہی کے دور میں کراچی میں بدترین فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ ایم کیو ایم نے گزشتہ 25 سال کے دوران پارٹی کو مزید جمہوری بنانے کے کئی مواقع ضائع کئے لیکن اس کی تنظیم، لبرل اورسیکولر مؤقف نے اسے ایک حقیقی ترقی پسند جماعت کے خواہشمندوں کو اُمید دی، لیکن الطاف حسین نے گزشتہ دو سال کے دوران کئی غلطیاں کیں۔ 2013ء کے عام انتخابات کے بعد پارٹی کے اندر مالی کرپشن کے سوال اُٹھے اورکئی ایک نے پارٹی چھوڑ دی، بعض کو پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے رویوں سے شکایت رہی، لہٰذا الطاف حسین کے پاس سیاسی تنہائی سے نکلنے، پارٹی بچانے کے لئے زیادہ وقت نہیں رہا، انہیں ملک کےآئینی فریم ورک میں رہتے ہوئے حل تلاش کرنے چاہئیں۔



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…